غزالہ عزیز
پچھلے سال صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر لاکھوں خواتین نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ یہ مظاہرے ٹرمپ کے خواتین مخالف نظریات اور ان کے حقوق پامال کرنے والوں کے خلاف تھے۔ اب ٹرمپ کی صدارت کو ایک سال ہونے پر دوبارہ واشنگٹن میں خواتین نے مظاہرے کیے۔ میڈیا نے بتایا کہ اس دوسرے سالانہ مظاہرے میں تقریباً تین لاکھ عورتوں نے حصہ لیا اور گرینٹ پارک سے فیڈرل پلازہ تک مارچ کیا۔ امریکی عوام اس مظاہرے سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ انہیں خود اپنے ہی صدر سے خطرات لاحق ہیں پھر بھلا وہ دنیا بھر میں جنگ کس سے کرتے پھر رہے ہیں۔ لہٰذا امریکی عوام جب خود کو اپنے صدر ہی سے غیر محفوظ سمجھتے ہوں تو ضروری ہے کہ امریکا دوبارہ صدارتی انتخابات کے لیے عوامی رائے کا جائزہ لیا جائے اور اس بار اس بات کو یقینی بھی بنائے کہ امیدواروں کو ہیکرز کی مدد حاصل نہیں ہوگی۔ یہ بات حیران کن کے ساتھ مضحکہ خیز بھی کہی جاسکتی ہے کہ وہ ملک جو دوسروں کے انتخابات میں مداخلت اپنا حق سمجھتا رہا ہے اس کے ہاں خود 2016ء کے صدارتی انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کے شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بلکہ یہ شبہات سے آگے کی چیز ہے کیوں کہ وہاں اٹارنی جنرل، امریکی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی سے باقاعدہ اس معاملے میں پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے آغاز کے ساتھ امریکا کا کردار تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے دنیا کے ساتھ معاملات چلانے کے لیے ایک مختلف نظریہ ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ پیش کیا یہ وہی نظریہ ہے جس کو پاکستان میں پرویز مشرف نے پیش کیا اور سخت نقصان اُُٹھایا۔ اس پالیسی نے امریکا کو تنہائی کا شکار کردیا ہے۔ عالمی سطح پر امریکی قیادت کے لیے حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے، ٹرمپ کے جارحانہ رویے اور مضحکہ خیز ٹیوٹر بیانات کے باعث امریکا کی افراتفری پر مبنی خارجہ پالیسی ظاہر ہورہی ہے۔ ٹرمپ کے عہد صدارت کا ایک سال مکمل ہونے پر مائیکل وولف کی کتاب ’’فائر اینڈ فیوری‘‘ ’’آتش اور غیظ‘‘ سامنے آئی ہے۔ اس کتاب میں ٹرمپ کی شخصیت اور عہد صدارت کے بارے میں انتہائی دھماکا خیز انکشافات کیے ہیں، اگرچہ اس کتاب کی فروخت کے لیے 9 جنوری کی تاریخ طے کی گئی تھی۔ لیکن اس سے پہلے ہی فروخت کے آرڈر لیے گئے جن کی بنا پر اس کو ’’بیسٹ سیلر‘‘ کتاب قرار دے دیا گیا۔ کتاب کے اقتباسات نیٹ پر دستیاب ہیں جن کے مطابق کتاب میں مائیکل وولف نے امریکی صدر کے بارے میں لکھا ہے کہ ٹرمپ ملازمین پر چیختے چلاتے ہیں، ایک ایک وقت میں تین تین ٹی وی دیکھتے ہیں، اپنی ذاتی اشیا کو کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے، یہاں تک کہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کوئی ان کے ٹوتھ برش پر زہر لگادے گا۔
مائیکل وولف لکھتے ہیں کہ اسٹیوبین جو ٹرمپ کے اسٹرٹیجک ایڈوائزر تھے انہوں نے کہا تھا کہ ٹرمپ کے بیٹے نے روسی افسران سے ٹرمپ ٹاور میں ملاقات کی تھی۔ کتاب میں لکھا گیا کہ ٹرمپ کے بیٹے روسیوں کے سامنے ایک انڈے کی طرح چٹخ گئے اور انہیں بہت سے راز بتادیے۔ ٹرمپ کے بارے میں کتاب میں لکھا ہے کہ انہیں امریکا کے آئین کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔ ارب پتی ٹام بیرک صدر ٹرمپ کو بیوقوف اور پاگل کہہ کر پکارتے ہیں جب کہ روپرٹ مرڈوک ٹرمپ کو احمق قرار دیتا ہے۔ عورتوں کے بارے میں شروع ہی سے بری شہرت رکھتے تھے۔ اب بھی ٹرمپ اپنے دوستوں کی بیویوں پر نظر رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں برے الفاظ ادا کرتے ہیں۔ مائیکل لکھتے ہیں کہ وہ اہم اور ضروری کاغذات بھی نہیں پڑھتے، حال ہی میں ایک بڑی اور شاندار دعوت میں ٹرمپ نے اپنے پرانے دوستوں کو پہچاننے سے انکار کردیا اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ دس بیس منٹ کے اندر وہ ایک بات کو تین تین دفعہ دوہراتے ہیں۔ ٹرمپ اپنے عملے کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں، وہ اپنے عملے کو غائب دماغ مایوسانہ انداز والا، نااہل اور بے کار کے علاوہ بھی بہت سی گالیاں دیتے ہیں۔ اپنی بیوی سے ان کی ان بن رہتی ہے وہ الگ الگ بیڈ روم میں رہتے ہیں، ٹرمپ کی اپنی بیٹی اپنے والد کے بالوں اور ہیئر اسٹائل کا مذاق اڑاتی ہے۔
پچھلے ہفتے ہونے والی گریمی ایوارڈ میں تقریب کے میزبان نے ایک ویڈیو پروگرام میں شامل کی جس میں ہیلری کلنٹن کے علاوہ دوسرے مشہور موسیقاروں کو کتاب کے اقتباس پڑھ کر سناتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، اس پروگرام میں اور بھی بہت کچھ تھا جو ٹرمپ اور ٹرمپ کی ٹیم کو پسند نہیں آیا ہوگا۔ مثلاً اس میں تارکین وطن کے دفاع میں تقریر تھی، مجموعی طور پر یہ پروگرام ٹرمپ کے لیے پریشان کن ضرور تھا۔ اگر ان کو اس سے فرق پڑتا ہے تو!!! ٹرمپ کے انتخاب کے بعد سے مجموعی طور پر امریکی اثرورسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سیاست دان اور تجزیہ نگار اس کی وجہ سے امریکی مخالفین یعنی روس اور چین کے آگے آنے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی سعودی عرب اور اسرائیل جیسے ملکوں نے تعریف کی ہے لیکن دنیا کے دیگر ملکوں میں حیران کن انداز میں امریکی انتظامیہ کا رویہ غیر مقبول ہے۔ دنیا کے 134 ملکوں میں رویوں کے بارے میں گیلپ سروے میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر امریکی قیادت کے لیے حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکا کی اخلاقی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی نے امریکا کو عالمی سیاست میں پیچھے کرکے ایک خلا پیدا کردیا ہے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مختلف ممالک کوششوں میں ہیں۔ چین تجارت اور سیاست دونوں میدانوں میں آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکی سینیٹر بین گارڈین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم اور آزاد دنیا کی تاریخ میں ٹرمپ ایک غیر متوقع حکمران ہیں۔ امریکی خواتین نے اس سلسلے میں واضح طور پر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ ٹرمپ کے ایک سالہ اقتدار مکمل ہونے پر امریکا کے ڈھائی سو شہروں میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ مظاہرین خواتین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں نے خواتین کو نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا وہ انتخابات میں اپنا ووٹ ضرور استعمال کریں۔ بات درست ہے ووٹ کا درست استعمال قوموں کو کہاں سے کہاں پہنچاتا ہے۔ دوسری طرف خواتین کی حساسیت مسلم ہے لہٰذا پاکستانی خواتین بھی انتخابات میں اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کے لیے اپنے ووٹ کا ضرور استعمال کریں کہ یہ فیصلہ نسلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔