قوم یہ تماشے کب تک دیکھے گی ؟

333

محمد انور

نقیب اللہ محسود کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نقیب اللہ کو جعلی مقابلے ہی میں ہلاک کیا گیا ہے۔ محسود قبیلے کے بے قصور نوجوان کو جھوٹے الزام میں اس کے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ ابوالحسن اصفہانی روڈ کراچی میں واقع ایک ہوٹل سے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے دو دوستوں کو رقم لے کر چھوڑدیا گیا اور اسے طالبان کا ساتھی کہہ کر جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا گیا۔ اسی طرح ڈیفنس سوسائٹی میں فائرنگ سے اپنے والدین کے اکلوتے نوجوان انتظار کی ہلاکت کا معاملہ بھی پولیس کی طرف انگلیاں اٹھا رہا ہے۔ نقیب اللہ کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ راؤ انوار اور اس کے ساتھی پولیس اہل کار ’’پولیس ٹیم‘‘ کے نام پر ایک ایسا گروہ چلایا کرتے تھے جس کی قانون اجازت نہیں دیتا جو ’’اغواء برائے تاوان‘‘ کے گروہ سے زیادہ خطرناک اور منظم تھا۔ اس گروہ پر ایک دو نہیں بلکہ ڈھائی سو ایسے جعلی پولیس مقابلوں کے الزام ہیں جن میں تین سو کے قریب بے گناہ مار دیے گئے۔ اسی طرح 21 سالہ انتظار کے حوالے سے سامنے آنے والی ویڈیو فوٹیج اور دیگر شواہد سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اے سی ایل سی پولیس جنہیں بعض بااثر شخصیات کی مبینہ طور پر پشت پناہی حاصل ہے انتظار کے قتل میں ملوث ہیں۔
نقیب اللہ، انتظار اور شاہراہ فیصل پر رکشے میں سوار پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی مقصود چند دنوں کے وقفے سے اس پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں جس کی ذمے داری ان نوجوانوں سمیت تمام لوگوں کا تحفظ کرنا تھی۔ مذکورہ تینوں واقعات اور پنجاب کے ضلع قصور میں ہونے والے معصوم زینب کے اغوا اور زیادتی کے مقدمے پر جاری عام لوگوں کے ردعمل اور حکومتوں کے دعووں کے باوجود قوم کو خدشہ ہے کہ ان واقعات کے ذمے دار پولیس اہل کار اور زینب کا ملزم عمران کا کچھ بھی نہیں ہوگا وقت گزرنے کے ساتھ یہ تمام واقعات بھی تحقیقاتی اداروں کی فائلوں میں دب جائیں گے اور پھر سب کچھ دوبارہ معمول پر آجائے گا اس وقت تک جب تک خدانخواستہ کوئی اور نیا سانحہ نہ ہو۔ ایسا ہی تو ہوتا رہا ہے ہمارے ملک میں، اب تک۔ اگر اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد چاہے وہ اعلیٰ سرکاری افسران ہی کیوں نہ ہو قانون کے مطابق سخت اور فوری کارروائی کی جاتی تو دوبارہ اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے۔
جس معاشرے کے ظالموں کو اللہ کا خوف نہ ہو اور قانون ان کی جیبوں میں رہتا ہو وہاں درندگی کا سلسلے جاری رہنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ خصوصاً ایسے معاشرے میں جہاں پولیس لوگوں کے تحفظ کے بجائے ان کی جان و مال کی دشمن بن جائے، بااثر اور چمپئن سیاست دان کرپٹ اور مجرموں کا بے شرمی سے تحفظ کرے، جہاں کے حکمران جعلی پولیس مقابلے میں بے قصور افراد کو مارکر تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہونے والے پولیس افسران کے خلاف دس دس دن بعد بھی صرف ’’معطلی‘‘ کی کاغذی کارروائی نہ کرسکیں اور عدالت عظمیٰ کی واضح ہدایت کے باوجود گرفتار نہ کرسکیں تو وہاں قوم کسی سے کیا مثبت توقعات رکھ سکتی ہے۔
تحقیقاتی کمیشن اور کمیٹیوں کے قصوں کی فائلوں سے سرکاری الماریاں بھری پڑی ہیں۔ مگر آج بھی قوم دیکھ رہی ہے کہ بعض سیاست دان اور دیگر شخصیات ہی کیا ’’پولیس کے مجرم اور کرپٹ اہل کار اہم فیصلے کرنے والے غیرقانونی ’’جرگے‘‘ اور ’’سپر پاور‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں‘‘۔
یہاں آج انوار احمد خان راؤ انوار کے روپ میں ’’ان کاؤنٹر اسپیشلسٹ‘‘ کہلانے لگا ہے تو قصور وار صرف وہ نہیں بلکہ وہ بھی ہیں جنہوں نے راؤ انوار کے حوالے سے آنے والی تمام شکایات کے باوجود اسے کراچی کے ضلع ملیر کا دس سال تک ’’پولیس چیف‘‘ بنائے رکھا۔ وہ پولیس کی وردی میں ضلع کا ’’بے تاج بادشاہ‘‘ ہی تو بنا ہوا تھا۔ آج کہا جارہا ہے کہ راؤ انوار مفرور ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے مفرور کروانے یا صوبے سے بھاگنے یا چھپنے کا موقع کس نے دیا؟ ڈھائی سو بے گناہ افراد کو ہلاک کرنے والا’’پولیس والا‘‘ جب حکومت کی گرفت سے بھاگ سکتا ہے تو وہ عناصر جو اعلانیہ جرائم کرتے ہیں کیسے گرفت میں آسکتے ہیں؟
کسی بھی ملک اور معاشرے میں جب سیاست دان سیاست میں سب جائز ہے کا نعرہ لگادیں تو وہاں سیاست دانوں اور انٹرنیشنل مافیا کے لوگوں کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے اور جہاں سیاست کے خود ساختہ چمپئن خود ہی دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی کے کارندے بن جائیں تو راؤ انوار ہی کیا کوئی بھی پولیس افسر کسی کو بھی طالبان اور داعش کا ساتھی ظاہر کرکے مار سکتا ہے اور دشمن ملک کے عزائم پورے کرسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ملک کا رضا کارانہ تحفظ کرنے والے وطن پرست پختونوں اور قبائیلیوں کو اسی طرح ختم کیا جاتا رہا ہو تاکہ دشمنوں کے راستے صاف ہوسکیں۔
آج وقت آ گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور آصف زرداری کے دوست ذوالفقار مرزا کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائے۔ ذوالفقار مرزا ایک سے زائد مرتبہ ٹی وی انٹرویوز میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری پر الزام لگاچکے ہیں کہ وہ ’’بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرتے ہیں‘‘۔ کیا ملک کا کوئی ادارہ اس قابل نہیں ہے کہ ان الزامات کی شفاف تحقیقات کراسکے؟ ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین پر بھی یہ الزام کئی سال پہلے بحیثیت صوبائی وزیر داخلہ سندھ لگایا تھا۔ آج الطاف حسین اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ ’’بھارت سے مخلص ہیں‘‘۔ انہوں نے 22 اگست 2016 میں پاکستان کے خلاف نعرہ لگاکر اس الزام کو خود ہی سچ ثابت کردیا تھا لیکن اس وقت تک ’’پانی سر سے گزر چکا تھا‘‘۔
آصف زرداری نے بے نظیر کی شہادت کے موقع پر ’’پاکستان کھپے‘‘ کی بات کرکے اور بعد میں ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکی دے کر کس کو کیا پیغام دیا تھا اس کی بھی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ لاہور میں مسلم لیگی حکمرانوں کی فیکٹری سے پکڑے جانے والے درجنوں بھارتی باشندوں کی تحقیقات (اگر ہوئی تھیں) تو اسے بھی منظر عام پر لایا جائے اور ان تحقیقات کے نتائج سے قوم کو باخبر کیا جائے۔
آج ہم کو یہ بھی طے کرنا پڑے گا کہ اگر ہمیں جمہوریت چاہیے تو کرپٹ اور مجرموں کے لیے سیاست میں داخلہ ممنوع قرار دیا جائے کیوں کہ جب تک سیاست دان اپنے آپ کو ہر قانون سے بالا تر سمجھے گا اس وقت تک پولیس ہی کیا ہر شعبے میں ماورائے عدالت اور ماورائے قانون کارروائیاں ہوتی رہیں گی اور ان کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں اور کمیشن بنتے رہیں گے۔ پھر زیادہ سے زیادہ الیکٹرونک میڈیا اپنے کردار کی خود ہی مٹی پلید کرتا رہے گا۔ سوال ہے کہ ’’آخر قوم یہ تماشے کب تک دیکھتی رہے گی؟‘‘۔