توہین عدالت پر سزا

377

ن لیگی سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت پر عدالت عظمیٰ نے ایک ماہ قید اور 5سال کے لیے نا اہلی کی سزا دے دی ہے۔ 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عاید کیا گیا ہے۔ نہال ہاشمی کو عدالت کے احاطے سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا لیکن وہ روایت کے مطابق فوراً ہی اسپتال منتقل ہوگئے۔ یہ سہولت کسی عام مجرم کو حاصل نہیں البتہ با اثر افراد کو سزا ہو تو وہ فوری طور پر اسپتال چلے جاتے ہیں۔ نہال ہاشمی نے نواز شریف کا نمک حلال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے ججوں پر انتہائی اشتعال انگیز اور بے ہودہ تنقید کی تھی۔ اتنا ہی نہیں موصوف نے جذبات میں آکر ججوں اور ان کے بچوں تک کو دھمکیاں دی تھیں اور کہاتھا کہ ججوں پر پاکستان کی سرزمین تنگ کردیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ غصہ ان کے ممدوح میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دینے پر تھا اور اس کا مقصد نواز شریف اور ن لیگ کی نظر میں اپنے آپ کو زیادہ معتبر بنانا تھا۔ اس معاملے میں نہال ہاشمی اکیلے نہیں ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ایسے ہی ایک اور ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ وزیر مملکت طلال چودھری کو بھی طلب کیا ہے۔ ان سب کو شہ دینے والے خود میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے عدالت عظمیٰ کی توہین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ توہین عدالت پر ان کو طلب کیا جانا چاہیے تھا۔تاہم مبصرین کا کہناہے کہ نہال ہاشمی کو سزا میاں نواز شریف کے لیے انتباہ ہے۔ نہال ہاشمی نے عدالت سے غیر مشروط معافی بھی طلب کی تھی جس پر کچھ ماہرین قانون کا کہناہے کہ معافی قبول کرلینی چاہیے تھی کہ عدالت کی روایت یہی رہی ہے۔ لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پہلے تو جی بھر کر گالیاں دو اور جب پکڑ کی جائے تو معافی مانگ لو۔ عدالتوں اور معزز ججوں کا مضحکہ اڑانے کی روایت زور پکڑتی جارہی ہے۔ جب تک سخت سزائیں نہ دی جائیں، یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ حیرت ہے کہ وکلا کی ایک تنظیم نے نہال ہاشمی کی سزا کے خلاف ہڑتال کا اعلان کردیا۔ وکلا عدالتوں کا اہم حصہ ہیں۔ انہیں تو اس وقت احتجاج کرنا چاہیے تھا جب ججوں کی آڑ میں عدلیہ کو گالیاں دی جارہی تھیں۔ مگر اس وقت تو کوئی نہیں بولا۔ سزا ہونے پر نہال ہاشمی کا وکالت کا لائسنس بھی منسوخ ہوجائے گا۔ انہیں منہ کھولنے سے پہلے ان سب باتوں پر غور کرلینا چاہیے تھا لیکن ان کے سامنے اپنا ’’تابناک‘‘ سیاسی مستقبل ہے۔ ایک ماہ کی سزا تو اسپتال ہی میں پوری ہوجائے گی اس کے بعد انہیں خدمت کا شاندار صلہ مل جائے گا۔ کتنے ہی بڑ بولے ایسے میں جو توہین عدالت کرکے بھی سزا سے بچ گئے اس سے دوسروں کو بھی حوصلہ ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی کے نو آموز سربراہ بلاول زرداری فرماتے ہیں کہ وہ سیاست دانوں کے خلاف توہین عدالت پر کارروائی کے حق میں نہیں ہیں۔ بلاول نے سوال کیا کہ اس آدمی کا کیا ہوگا جس نے عدالت عظمیٰ پر حملہ کیا۔ ان کا اشارہ نواز شریف کی طرف تھا۔ خود ان کے والد آصف علی زرداری فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کر ملک سے نکل لیے تھے۔ بلاول کے مطابق سیاست دان آسمانی مخلوق ہیں، ان کے خلاف توہین عدالت پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے جب کہ سیاست دانوں کو زیادہ ہوش اور سمجھ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ جو روش چل پڑی ہے اس میں کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔