عالمی معیشت کے بدلتے اطوار

415

گزشتہ سو سال میں علم معیشت کے میدان میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں وہ افکار و نظریات جنہیں معاشی ماہرین بڑی شدت سے پیش کرتے تھے وہ غلط ثابت ہوئے اس کے بعد کچھ دوسرے دانشور اور محقق سامنے آئے جنہوں نے اپنے خیالات و نظریات کی پر زور تبلیغ کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات سے رجوع کرنا پڑا یا اُن میں ترمیم یا تبدیلی ناگزیر ہوگئی۔
معاشیات کے نفس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ مختلف ممالک میں ایک تیز رفتار معاشی ترقی ہو جس کے نتیجے میں بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔ لوگوں کی اجرتوں میں اضافہ ہو جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو۔ زندگی کی آسانیاں اور آسائشات میسر ہوں، غریب اور امیر کا فرق کم سے کم ہو، معاشرے کے تمام افراد کو اپنی صلاحیت اور دلچسپی کے لحاظ سے آمدنی کمانے کے مواقعے دستیاب ہوں، زندگی کی بنیادی سہولتیں مثلاً تعلیم و صحت، رہائش، آمدورفت کے ذرائع، صاف ہوا اور صاف پانی وغیرہ بلارنگ، نسل، زبان اور مذہب سب کو میسر ہوں۔ لیکن اب یہ تمام باتیں خواب لگتی ہیں، جب ہم ایشیا اور افریقا میں اربوں لوگوں کو بھوک، افلاس، غربت اور بیماری کے پنجوں میں جکڑا ہوا دیکھتے ہیں اور دوسری طرف ارب پتی اور کروڑ پتی لوگوں کا ایک گروہ ہے جو اپنی دولت کے بل پر مزید دولت کما رہا ہے، تمام بڑے بڑے بینکوں میں ان کے اکاؤنٹس ہیں، رشوت اور ٹیکس چوری کی رقم آف شور کمپنیوں میں لگائی ہوئی ہے، بڑے بڑے محلات، جہازوں کے بیڑے اُن کی دولت میں شامل ہیں۔
پچھلی صدی میں معاشی ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں حکومتی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور اشیا کی پیداوار، ان کی قیمتوں کا تعین اور صارف کی قوت خرید کو مارکیٹ کی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ مارکیٹ اپنا راستہ خود بنالے گی، اشیا کی قیمتیں طلب رسد کی بنیاد پر طے ہوں گی اور اس طرح معیشت کا پہیہ چلتا رہے گا لیکن جب 1930ء میں مغربی دنیا میں معاشی بحران آیا جس کے نتیجے میں پیداوار گھٹ کر آدھی رہ گئی، امریکا میں 25 فی صد افرادی قوت بے روزگار ہوگئی اور یہ معاملہ بجائے ٹھیک ہونے کے بد سے بدتر ہوتا چلا گیا تو معاشی ماہرین اپنے افکار و نظریات پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئے اور یہ حقیقت تسلیم کرنے لگے کہ کاروباری اور معاشی سرگرمیوں میں تسلسل و استحکام کے لیے حکومتی کردار کی بڑی اہمیت ہے اور حکومت کو ایسے اقدامات حالات کے لحاظ سے اُٹھانے چاہئیں کہ ملکی معیشت ہموار راستے پر چلتی رہے۔
حکومتی کردار تسلیم کرنے کے باوجود مجموعی طور پر معاشی ماہرین میں یہ رائے غالب رہی کہ معاشی سرگرمیوں میں حکومت کا کردار کم سے کم ہونا چاہیے اور اشیا کی پیداوار اور قیمتوں کا تعین آزادانہ معیشت کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور ان پر پابندیوں یا قدغنوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور اس میں نجکاری کا ایک غلغلہ پیدا ہوا اور سرکاری اداروں کو نجی ملکیت میں دینے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ کہا گیا کہ حکومت کا کام حکومت کرنا ہے کاروبار کرنا نہیں ہے۔ اس لیے حکومت جلد از جلد سرکاری اداروں کو نجی کاروباری لوگوں کو فروخت کردے۔ چناں چہ سرکاری ادارے نجی کاروباری لوگوں کو اونے پونے فروخت کیے جانے لگے جنہوں نے قیمتوں میں اضافہ کرکے اور ملازمین کو بے روزگار کرکے خوب منافع کمایا۔ دوسری طرف دنیا میں ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے نجی شعبے کو محدود کیا اور زیادہ تر ادارے سرکاری انتظام میں چلتے رہے اور ایک کنٹرولڈ معیشت کی بنیاد رکھی اور آزاد معیشت کے اصولوں کو رد کیا جن کی مغربی دنیا میں تبلیغ کی جاتی ہے اور ایسے ممالک نے معاشی میدان میں بہت ترقی کی اور ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔ اس کی نمایاں مثال چین کی تیز رفتار اور مستحکم معاشی ترقی ہے جس کے باعث اس وقت چین دنیا میں دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے اور اس کی برآمدات دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔
اسی طرح عالمی معیشت کے میدان میں معاشی ماہرین گلوبلائزیشن اور آزاد تجارت پر زور دیتے رہے اور مغربی دنیا کے دانشور اور قائدین ایشیا اور افریقا کے ممالک میں آزاد تجارت کی تبلیغ کرتے رہے۔ لیکن جب ان کے ممالک میں ایشیائی ممالک کی برآمدات پہنچنے لگیں تو تلملا اُٹھے اور پچھلے ورلڈ اکنامک فورم میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا فرسٹ کا نعرہ لگایا اور ارادہ ظاہر کیا کہ امریکا پہلے اپنا مال خریدے گا اور دوسرے ممالک کا مال امریکا نہیں آنے دیا جائے گا۔ اس پر چینی صدر نے انتباہ کیا کہ آپ کے معاشی مسائل منافع خوری اور مالی بد انتظامی کی وجہ سے ہیں اور اگر آپ تجارتی جنگ شروع کریں گے تو فتح حاصل نہیں کرسکیں گے۔ 2018ء میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا فرسٹ کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور انہوں نے سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ امریکا میں اپنا سرمایہ لگائیں لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہم غیر منصفانہ تجارت کو نہیں چلنے دیں گے۔ چناں چہ ورلڈ اکنامک فورم کے حالیہ اجلاس میں گلوبلائزیشن کے حامیوں کو مخالفت کرتے ہوئے دیکھا گیا اور مخالفوں کو حمایت کرتے ہوئے سنا گیا۔ آگے آگے دیکھیے عالمی معیشت کیا رُخ اور کیا سمت اختیار کرتی ہے۔