صاحبو! نکاح کی طلاق ہوتی بارہا دیکھی اور سنی گئی ہے مگر لڑی ہوئی آنکھوں کی طلاق آج تک سننے میں نہیں آئی وہ ہیر رانجھا کا قصہ ہو یا پاک چین دوستی کا۔ امریکا سے پیدا ہونے والی اکتاہٹ اور پراگندگی کو ہم پاک چین دوستی میں فراموش کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سی پیک کا جو شاہی قلعہ ہم تعمیر کرنے جارہے ہیں وہ ہوائی قلعہ سے زیادہ نہیں۔ امیروں پہ تکیہ کرنے سے فقیروں کو کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے۔
ہم فقیروں کی جو کہتے ہو رہائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
ہم فقیروں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے
ہم فقیروں کی ابھی اور پٹائی ہوگی
چین سے لڑی ہوئی آنکھوں کی دُہائی لے کر کچھ سینیٹرز حکومت کے پاس گئے۔ روزنامہ ٹریبون کے مطابق اس میٹنگ میں حکومت سینیٹ کے ارکان کے سامنے سی پیک کے ملتان سکھر سیکشن کی تعمیر کے لیے چینی کمپنی کو دی جانے والی وسیع ٹیکس مراعات اور ٹیکس سے استثنی کی وضاحت دینے میں ناکام رہی۔ ایک اندازے کے مطابق اس سیکشن کی تعمیر کے لیے چینی کمپنی کو 11ارب روپے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔ کمپنی کو سکھر ملتان سیکشن کی تعمیرکے لیے درکار درآمدی تعمیراتی میٹریل اور اشیا کے لیے ایکسائز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنی دیا گیا ہے۔ ملکی صنعت کاروں اور کمپنیوں کی جانب سے ان مطالبات میں شدت آتی جارہی ہے کہ انہیں بھی وہی مراعات اور ٹیکس سے استثنی دیا جائے جو چینی کمپنیوں کو دیا جارہا ہے۔
پاکستان کا مینوفیکچرنگ سیکٹر پہلے ہی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ستایا ہوا ہے۔ کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے جو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہوتی ہے اس کے حوالے سے پہلے ہی کہا جاتا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر اشیا پاکستان کی حدود ہی میں روک لی جاتی ہیں یعنی وہ افغانستان میں اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتیں۔ یہ سستی اشیا پاکستان کے طول وعرض میں فروخت کی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ان اشیا کو تیار کرنے والے ملکی کارخانے اور یونٹس بند ہوچکے ہیں۔ سی پیک دراصل چین کی ٹرانزٹ ٹریڈ ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ ٹرانزٹ ٹریڈ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے ہزار گنا ہے۔ اگر چین کی ٹرانزٹ ٹریڈ کا محض ایک فی صد بھی پاکستان کی حدود میں اِدھر اُدھر کردیا گیا تو یہاں کے مینو فیکچرنگ سیکٹر پر اس کے شدید منفی اثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ماضی کا تجربہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ چند ایک صنعتوں یا علاقوں کو ٹیکس کے حوالے سے چھوٹ دینے کے مثبت کم اور منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ملکی معیشت کو فائدہ کم ہی پہنچتا ہے اور معاملات بگاڑ کی طرف زیادہ جاتے ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے چینی اداروں کو ٹیکس کی جو چھوٹ دی جارہی ہے وہ پاکستان کے مینو فیکچرنگ سیکٹر کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگی اور مقامی صنعتوں کے لیے اپنی بقا یقینی بنانا دشوار یا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران غیروں کو نوازنے میں کسی حد کے قائل نہیں۔ وہ غیروں پہ کرم کرتے ہیں تو پھر کرتے ہی چلے جاتے ہیں اس کے نتائج اپنوں پر کیسے زہریلے اور خطرناک مرتب ہوتے ہیں ان کے پاس سوچنے کے لیے نہ فرصت ہے اور نہ دماغ۔ ورنہ چینی کمپنیوں کو ایسی مراعات اور ٹیکس میں چھوٹ دینے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے تھا کہ چین کی ٹرانزٹ ٹریڈ کا پاکستان کے مینوفیکچرنگ یا اشیا سازی کے شعبے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
فارسی ضرب المثل ہے ’’ہرکہ آمد، عمارت نو ساخت‘‘۔ یعنی جو کوئی آیا اس نے نئی عمارت بنائی۔ عمارت بنانے میں حرج نہیں حرج اس کمیشن یا کک بیکس میں ہوتا ہے جو عمارت سازی کے دوران غیر ملکی کمپنیوں کو مراعات اور ٹیکس سے چھوٹ دینے کے عوض وصول کی جاتی ہیں۔ ایک جاپانی صنعت کار سے دریافت کیا گیا آپ سے خریداری کے لیے پاکستانی اور ہندوستانی حکومتی اہل کار رابطہ کرتے ہیں، دونوں کے رویے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ جاپانی صنعت کار نے جواب دیا کہ پاکستانی حکومتی اہل کار جہاز سے اتر کر کار میں بیٹھتے ہی ہمارے نمائندے سے اپنے کمیشن کی بابت بات کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جرح کرتے ہیں۔ جب ان کا کمیشن طے ہوجاتا ہے اور ہوٹل میں اپنے آرام اور تفریح کے انتظام سے وہ مطمئن ہوجاتے ہیں پھر وہ پروڈکٹ کی کوالٹی پر زیادہ اصرار کرتے ہیں اور نہ قیمتوں کے باب میں کچھ تردد کرتے ہیں۔ ہندوستانی اہل کاروں کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ پہلے وہ کوالٹی کا باریکی سے جائزہ لیتے ہیں۔ کوالٹی سے مطمئن ہونے کے بعد قیمت کے بارے میں تھکا دینے کی حد تک جرح کرتے ہیں۔ یہ دونوں معاملات طے ہونے کے بعد وہ کمیشن اور ہوٹل میں اپنی تفریح کی بات کرتے ہیں۔
ملک میں سرمایہ کاری کے معاملات امریکا اور مغرب کے ساتھ ہوں یا چین اور کسی اور ملک کے ساتھ سرمایہ لانے کے نام پر متعلقہ ممالک کو جو مراعات دی جاتی ہیں اب تک کا تجربہ یہی ہے کہ ان مراعات کا فائدہ ان ممالک کو ہوتا ہے یا پاکستان کے حکمرانوں کو۔ مملکت پاکستان اور عوام اس سرمایہ کاری سے کم ہی مستفید ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مراعات اپنے ملک کے صنعت کاروں اور کمپنیوں کو کیوں نہیں دی جاتیں؟ کمیشن اور کک بیکس کے معاملات تو ان سے بھی طے کیے جاسکتے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت ہمارے حکمرانوں کو اقتدار اس شرط پر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بڑھ کر استعماری آقاؤں کے مفادات کی نگہبانی کریں۔ اپنے قا نون سازی کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قوانین بنانے یا ان کے نفاذ میں استعماری آقاؤں کے مفادات کو ترجیح دیں گے۔
ان تمام مسائل کا حل اسلام کے پاس ہے۔ اسلام میں چوں کہ ٹیکسوں کا تعین ہے کہ کون سا ٹیکس کب اور کہاں لگانا ہے اور اس سے حاصل رقوم کن مدوں میں خرچ کرنی ہیں۔ اس لیے یہ حکمرانوں کے اختیار میں ہیں اور نہ ان کی مرضی پر منحصر۔ صنعت کار ملکی ہوں یا غیر ملکی یہ قوانین حکمرانوں کوکسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتے اور یہ قوانین وہ قوانین ہیں بقول مولانا سید ابوالاعلی مودودی جنہیں ’’توڑنے مروڑنے اور رد وبدل کا تختہ مشق بنانے کا اختیار کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر یا جمہوری مجلس قانون ساز یا اسلام قبول کرنے والی کسی قوم کو حاصل نہیں۔ یہ قانون خیر وشر کی مستقل قدریں (permanent values) انسان کو دیتا ہے جنہیں بدل کر کبھی کوئی خیر کو شر اور شر کو خیر نہیں بنا سکتا۔‘‘