سرسید اور ان کا عشق رسولؐ

959

سرسید منکر قرآن ہیں، منکر حدیث ہیں، منکر اجماع ہیں، منکر علم تفسیر ہیں، منکر فقہ ہیں مگر اس کے باوجود ان کے عشق رسولؐ کا شور ہر طرف برپا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سرسید کو رسول اکرمؐ سے ایسی محبت ہے کہ سرسید میدانِ حشر میں صرف اپنے عشق رسولؐ کی وجہ سے بخشے جائیں گے۔ سرسید کے عشق رسولؐ کے سلسلے میں سرسید کی ’’خطبات احمدیہ‘‘ کا بڑا چرچا رہتا ہے۔ سرسید نے یہ کتاب سر ولیم میور کی تصنیف ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے جواب میں لکھی تھی۔ آئیے سرسید کے مشہور زمانہ ’’عشق رسولؐ‘‘ کے مظاہر ملاحظہ کرتے ہیں
سرسید کے عشق رسولؐ کا ایک مظہر یہ ہے کہ سرسید نے رسول اکرمؐ کے ’’دفاع‘‘ میں لکھی جانے والی کتاب ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ میں رسول اکرمؐ کو ’’محمد صاحب‘‘ اور ’’پیغمبر صاحب‘‘ کہا ہے۔ ایک جگہ نہیں کئی جگہ۔
(الخطبات الاحمدیہ۔ از سرسید۔ صفحہ 218-221-223-225 ناشر۔ دوست ایسوسی ایٹس۔ لاہور)
اردو ادب کے معروف نقاد، محقق اور شاعر ڈاکٹر تحسین فراقی کچھ عرصہ قبل کراچی آئے تو ہم نے سرسید کے ’’محمد صاحب‘‘ کا ذِکر ان سے کیا۔ کہنے لگے کہ یہ حرکت تو پاکستان کے قومی ترانے کے خالق ابوالاشر حفیظ جالندھری نے بھی کی ہے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حفیظ جالندھری نے سرسید کے زیر اثر ہی رسول اکرمؐ کو ’’محمد صاحب‘‘ لکھا ہوگا۔ لیکن اس بات کو آپ سرسید کے عشق رسولؐ کا آغاز سمجھیے۔ سب جانتے ہیں کہ سرسید نے علی گڑھ میں کالج قائم کیا تو اس کا نام ’’محمڈن کالج‘‘ رکھا۔ سرسید نے سہ ماہی رسالہ نکالا تو اس کا نام ’’لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ رکھا۔ انہوں نے ’’محمڈن ایسوسی ایشن علی گڑھ‘‘ اور ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ بھی قائم کی۔ اس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے حالی کی ’’حیات جاوید‘‘۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے نہیں ہے، کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ محمڈن کے لفظ سے کسی جاہل کو خیال آسکتا ہے۔ سرسید کوئی بھی ’’نیک کام‘‘ کرتے تھے تو انہیں رسول اکرمؐ کا اسم گرامی یاد آجاتا تھا۔ آخر سرسید کو رسول اکرمؐ سے ’’عشق‘‘ تھا۔ لیکن فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کیجیے۔ ’’محمڈن‘‘ نہ عربی کا لفظ ہے، نہ فارسی کا، نہ اردو کا یہ انگریزی کا لفظ ہے اور یہ لفظ ’’محمڈن ازم‘‘ کی اصطلاح سے لیا گیا ہے۔ عیسائی رسول اکرمؐ کو پیغمبر نہیں مانتے، چناں چہ وہ اسلام کو اسلام کے بجائے ’’محمڈن ازم‘‘ کہتے رہے ہیں۔ یعنی ’’محمڈن ازم‘‘ آسمانی مذہب نہیں بلکہ معاذ اللہ محمدؐ کی ’’ایجاد‘‘ ہے۔ چناں چہ اسی ایجاد کو اس کے خالق سے منسوب کرتے ہوئے اہل یورپ اسلام کو محمڈن ازم کہتے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سرسید کو ’’محمڈنز‘‘ کے تصور سے ایک لاکھ کلو میٹر دور کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہ لفظ رسول اکرمؐ کی توہین ہے‘ اسلام کی توہین ہے، مسلمانوں کی توہین ہے۔ مگر سرسید نے اس لفظ کو سینے سے چمٹا لیا اور اپنے اداروں کے نام میں اس لفظ کو شامل کرتے چلے گئے۔ سرسید قرآن کی لفظیات استعمال کرتے تو وہ اپنے اداروں کو ’’اسلامی‘‘ قرار دیتے۔ ’’مسلم‘‘ قرار دیتے۔ یہ سرسید کے شدید عشق رسولؐ کی ایک اور مثال ہے۔
سرسید کے سوانح نگار مولانا حالی نے سرسید کی سوانح حیات جاوید کے دیباچے میں سرسید کا ایک خواب بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
’’سرسید نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ چاندنی رات ہے اور چاند نکلا ہوا ہے اور وہ اپنے مکان کے سامنے صحن کے چبوترے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سید کی نگاہ اپنے بائیں پیر پر پڑی تو دیکھا کہ ان کے پاؤں کی انگلیوں کی ایک ایک پور کٹ گئی ہے مگر کچھ درد نہیں اور نہ اس سے لہو بہتا ہے مگر کٹی ہوئی پوروں کے سرے جہاں سے کٹے ہیں نہایت سرخ لہو کی ماند ہورہے ہیں۔ سرسید حیران ہوئے کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں ایک بزرگ آئے اور انہوں نے ان کی کٹی ہوئی انگلیوں کے پیروں پر اپنا لب مبارک لگادیا۔ اسی وقت ان انگلیوں میں نمو شروع ہوگئی اور سب انگلیاں درست ہوگئیں اور ان میں چاند سے زیادہ روشنی تھی۔ سید چاند کو دیکھتے اور ان انگلیوں کو دیکھتے اور ان میں چاند سے زیادہ روشنی پاتے تھے۔ خواب میں ان کو کسی طرح یقین ہوا یہ محمد رسول اللہؐ تھے جنہوں نے لب مبارک لگایا تھا‘‘۔
(حیات جاوید۔ ضمیمہ جات۔ از مولانا حالی۔ صفحہ 10۔ لاہور۔ الہجرہ پبلشرز۔ سن اشاعت 1984ء)
ہم نے بڑے علما اور صوفیا کے حوالے سے ایسے کئی واقعات پڑھے ہیں جن میں علما اور صوفیا نے خواب میں رسول اکرمؐ کی زیارت کی۔ ہم نے اس سلسلے میں کئی عام افراد کے خواب بھی سن رکھے ہیں۔ ہم نے ہر خواب میں رسول اکرمؐ کو ان کی شان کے مطابق ظاہر ہوتے ہوئے پایا۔ ایک بچی نے ہمیں حال ہی میں اپنا خواب سنایا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک کمرے میں ہے اور کمرے میں رسول اکرمؐ کی آمد متوقع ہے۔ یہاں تک کہ رسول اکرمؐ کے قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔ بچی پر رسول اکرمؐ کی عظمت، جلال اور جمال کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے سوچا کہ وہ رسول اکرمؐ کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتی۔ چناں چہ وہ ہیبت سے زمین میں دھنس گئی مگر سرسید کی جرأت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کو اپنے پاؤں کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا۔ اللہ اکبر۔ کیا یہی سرسید کا عشق رسولؐ ہے؟۔
عشقِ رسولؐ کا ایک تقاضا یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کو سردار الانبیا، باعثِ تخلیق کائنات اور خاتم النبین تسلیم کیا جائے۔ بدقسمتی سے سرسید رسول اکرمؐ کو خاتم النبین نہیں مانتے۔ اس سلسلے میں ان کی تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ سرسید لکھتے ہیں۔
’’روحانی ترقی کے باب میں جو کچھ محمد رسول اللہؐ فرما گئے وہ حد یا انتہا اس کی ہے، اس لیے وہ خاتم ہیں۔ اب اگر ہزاروں لوگ ایسے پیدا ہوں جن میں ملکہ نبوت ہو مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے (جو رسول اللہؐ کہہ گئے) رسول خداؐ نے ختم نبوت فرمایا ہے ملکہ نبوت کا خاتم اور فیضان الٰہی کا خاتمہ نہیں فرمایا۔ بلکہ اولیا امتی کلنبیا بنی اسرائیل کے لفظ سے اس ملکہ نبوت کا تاقیامت جاری رہنا پایا جاتا ہے‘‘۔ (تہذیب الاخلاق (2) صفحہ 132۔ بحوالہ افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 67)
ختم نبوت کی یہی وہ تعبیر ہے جسے مرزا غلام احمد قادیانی نے اختیار کرکے جھوٹی نبوت کا اعلان کیا۔ مگر مرزا غلام احمد قادیانی مردود ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی پیدا کرنے والے سرسید عاشق رسولؐ ہیں۔
منکر حدیث اس اعتبار سے قرآن، اسلام اور رسول اکرمؐ کا دشمنی ہے کہ وہ امت کو قرآن کی تشریح کے دوسرے بڑے ذریعے اور رسول اکرمؐ کے ارشادات کے بیش بہا خزانے سے کاٹنے کی سازش کرتا ہے۔ بدقسمتی سے سرسید منکر حدیث ہیں۔ ان کے انکار حدیث کی شدت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کو بھی مکمل طور پر قابل بھروسا نہیں سمجھتے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جب سرسید کو اپنی کوئی بات ثابت کرنی ہوتی ہے تو وہ پھر حدیث کا حوالہ دینے سے گریز نہیں کرتے۔ مثلاً خطبات احمدیہ کے صفحہ 174 اور صفحہ 175 پر سرسید نے ایک حدیث شریف کا حوالہ دیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا۔
’’تم میں سے کوئی میرا غلام اور میری لونڈی ہرگز نہ کہے تم سب خدا کے غلام ہو اور تمہاری سب عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں مگر کہو کہ ’’میرا بچہ اور میری بچی اور میرا لڑکا‘‘۔
اس صورتِ حال کا مفہوم یہ ہے کہ سرسید نے علم حدیث کو مذاق بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سرسید کا دل چاہتا ہے تو وہ پورے علم حدیث کا انکار کردیتے ہیں مگر ضرورت پڑ جائے تو وہ حدیث کو استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ کیا یہی سرسید کا عشق رسولؐ ہے؟۔
سرسید معجزات کے منکر ہیں چناں چہ انہوں نے رسول اکرمؐ کی جسمانی معراج کا بھی انکار کیا ہے۔ انکار ہی نہیں انہوں نے سیرت پر اپنی کتاب خطبات احمدیہ میں معراج کے واقعے کو ’’مذاق‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ کیسے، آئیے دیکھتے ہیں۔
’’مالک بن صعصعہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ان لوگوں سے معراج کا واقعہ بیان کیا تو فرمایا کہ اس وقت ’’میں حطیم میں تھا‘‘ اور کبھی فرمایا میں حجرے میں تھا‘‘۔
’’انس سے روایت ہے کہ ابوذر حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا میرے گھر کی چھت شق ہوئی اور میں مکے میں تھا‘‘۔
’’اُم ہانی نے کہا رسول اللہؐ کو (جسمانی) معراج نہیں ہوئی، مگر یہ کہ وہ اس رات میرے گھر میں تھے‘‘۔
’’سیدنا عمر بن خطابؓ نے معراج کی حدیث میں آپؐ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، پھر واپس آیا میں خدیجہ کی طرف اور انہوں نے کروٹ نہیں بدلی تھی‘‘۔
(خطبات احمدیہ۔ از سرسید۔ صفحہ 358، 359)
سوال یہ ہے کہ جب سرسید علم حدیث کو قابل اعتبار ہی نہیں سمجھتے تو انہوں نے معراج کے انکار کے سلسلے میں چار احادیث کیوں تحریر کیں؟ آپ ان احادیث کو ایک تناظر میں ملاحظہ کریں گے اور آپ کا علم راسخ نہیں ہوگا تو آپ قیاس کرسکتے ہیں کہ معاذ اللہ یا تو رسول اکرمؐ نے معراج کے واقعات کے سلسلے میں اپنے بیانات بدلے ہیں اور متضاد باتیں کہی ہیں یا ان روایات کے راوی (خدانخواستہ) جھوٹے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام، رسول اکرمؐ اور ان کے بے مثال اصحاب سے محبت ہے یا ان سے دشمنی؟ اس سلسلے میں سرسید نے جو بات نہیں کہی وہ یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کی جسمانی معراج پر صحابہ کا بھی اجماع تھا۔ تابعین کا بھی اجماع تھا۔ تبع تابعین کا بھی اجماع تھا اور ان کے بعد سے اب تک علما اور مفسرین کا بھی اجماع ہے۔ مگر سرسید اجماع کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ البتہ چار مختلف صحابہ کے انفرادی اقوال پیش کرتے ہیں۔ آخری قول میں انہوں نے معراج کے واقعے میں سیدہ خدیجہؓ کو شامل کردیا ہے حالاں کہ معراج کے واقعے کے وقت سیدہ خدیجہؓ دنیا میں موجود ہی نہ تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی سرسید کا ’’عشق اسلام‘‘ ہے، کیا یہی ان کا ’’عشق رسولؐ‘‘ ہے؟۔
بلاشبہ معجزہ نبوت کی ’’واحد دلیل‘‘ نہیں لیکن معجزہ نبوت کی ’’ایک دلیل‘‘ ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو ازم، عیسائیت، یہودیت اور اسلام سب کی مذہبی روایت میں معجزات موجود ہیں۔ مگر سرسید سرے سے معجزے ہی کی روایت کے منکر ہیں۔ رسول اکرمؐ کے معجزات پر ضخیم کتب لکھی گئی ہیں مگر سرسید کہتے ہیں کہ قرآن سے رسول اکرمؐ کا کوئی معجزہ ثابت نہیں۔ سرسید کے نزدیک یہ رسول اکرمؐ کی سچائی اور نبی برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ (حیات جاوید۔ صفحہ 596) سرسید کی اس رائے کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ وہ شاید قرآن مجید میں موجود دوسرے انبیا کے معجزات کو مانتے ہوں گے۔
مگر سرسید نے لکھا ہے کہ رسول اللہؐ تو سردار الانبیا ہیں جب قرآن ان کے کسی معجزے کا ذکر نہیں کرتا تو پھر یقیناًدوسرے انبیا کو بھی معجزات نہیں دیے گئے ہوں گے اور قرآن میں جن معجزات کا ذکر ہے وہ معجزات نہیں بلکہ ’’طبعی قوانین‘‘ کے تحت رونما ہونے والے ’’واقعات‘‘ ہوں گے۔ (حیات جاوید۔ صفحہ 605)۔
سرسید کے ’’عاشقان‘‘ اپنی تحریروں میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ سرسید کو سرولیم میور کی تصنیف ’’لائف آف محمدؐ‘‘ سے شدید تکلیف پہنچی اور وہ سر ولیم میور کی کتاب کا جواب لکھنے کے لیے لندن جانے پر مجبور ہوئے۔ اس سلسلے میں سرسید نے نواب محسن الملک کے نام ایک خط میں لکھا۔
’’ان دنوں ذرا میرے دل کو سوزش ہے۔ ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرتؐ کے حال پر لکھی ہے اس نے میرے دل کو جلا دیا اور ان کی ناانصافیوں اور تعصب کو دیکھ کر دل کباب ہوگیا‘‘۔ (نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 261)۔
اس سلسلے میں ضیا الدین لاہوری کی تحقیق یہ ہے کہ سرسید کو سر ولیم میور کی کتاب کا جواب لکھنے کا خیال لندن پہنچنے کے ساڑھے تین ماہ بعد آیا۔ یعنی وہ ’’عشق رسولؐ‘‘ سے سرشار ہو کر لندن نہیں گئے تھے بلکہ اصولی اعتبار سے وہ لندن اس لیے گئے تھے کہ وہاں کے تعلیمی نظام کا جائزہ لے سکیں۔ سرسید 4 مئی 1869ء کو لندن پہنچے اور انہوں نے 6 اگست 1869ء کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ میور صاحب کی کتاب کے جواب کا سامان نہیں ہوسکا۔ اب ]یہ[ نہیں ہو سکتا۔ (نقش سرسید۔ صفحہ۔ 261-263)۔
مذکورہ بالا خط کے آخر میں سرسید نے یہ لکھا کہ اب میں ’’مواعظ احمدیہ‘‘ لکھ رہا ہوں۔ ضیا الدین لاہوری کے بقول یہی مواعظ بعد میں خطبات احمدیہ کے نام سے شائع ہوئے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب ولیم میور کی کتاب نے سرسید کے دل کو کباب کردیا تھا اور ان کا ’’عشق رسولؐ‘‘ جن کی وجہ سے جوش میں آگیا تھا وہی ولیم میور 1875ء میں علی گڑھ آگیا اور آتے ہی سرسید کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ ولیم میور نے علی گڑھ کالج کی مالی کمیٹی کے اجلاس میں کالج کے ناظر اعلیٰ کے طور پر شرکت کی تو سرسید نے اس کی تعریف فرمائی۔ ولیم میور نے اپنے خطاب میں علی گڑھ کالج کو اس بات پر سراہا کہ وہاں غیر دینی اور یورپی ادبیات کی تعلیم دی جارہی ہے۔
(نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری صفحہ 271-273)۔
ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ سرسید کا مشہور زمانہ ’’عشق رسولؐ‘‘ اتنا گہرا اور قوی تھا جس ولیم میور کی کتاب سرسید کو بے تاب کررہی تھی چند برسوں بعد اس ولیم میور کو سرسید نے نہ صرف یہ کہ اپنے قائم کردہ کالج کا ناظر اعلیٰ بنادیا بلکہ اس کی تعریف بھی فرمائی۔ سرسید کا یہی عشق رسولؐ سوامی دیانند سرسوتی کے حوالے سے بھی ظاہر ہوا۔ سوامی دیانند سرسوتی نے کیا کیا؟ بابائے اردو کی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں۔
’’سوامی دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ میں اسلام اور بانی اسلامؐ کے خلاف ناقابل برداشت دریدہ دینی سے کام لیا جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں سخت منافرت پھیلادی‘‘۔ (سرسید احمد خان۔ حالات و افکار۔ از مولوی عبدالحق۔ صفحہ 84-85۔ بحوالہ نقش سرسید ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 273)۔
اسی سوامی دیانند سرسوتی کا انتقال ہوا تو ’’عاشق رسولؐ‘‘ سرسید احمد خان نے سوامی دیانند سرسوتی کے بارے میں لکھا۔
ہم ہمیشہ ان کا نہایت ادب کرتے تھے کیوں کہ ایسے عالم اور عمدہ شخص تھے کہ ہر مذہب والے کو ان کا ادب لازم تھا۔ ایسے شخص تھے جن کا مثل اس وقت ہندوستان میں موجود نہیں ہے اور ہر شخص کو ان کی وفات کا غم کرنا لازم ہے کہ ایسا بے نظیر شخص ان کے درمیان سے جاتا رہا‘‘۔ (سرسید کی تعزیتی تحریر یں۔ مرتب اصغر عباس۔ ایجوکیشنل بک علی گڑھ۔ صفحہ 19، سن اشاعت 1989ء۔ بحوالہ نقش سرسید، صفحہ 274)۔
تو عزیزانِ گرامی یہ تھیں سرسید کے ’’مشہور زمانہ‘‘ عشق رسولؐ کی چند مثالیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی عشق رسولؐ ہے تو توہین رسول کسے کہتے ہیں؟