جنگل کا بادشاہ شیر ہوتا ہے اسے ہی ہونا چاہیے لیکن کوئی انتخابی نشان شیر رکھ کر اپنے آپ کو شیر سمجھنے لگے یا شیر جیسا بننے کی کوشش کرے تو اسے پاگل ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہر لحاظ جنگل کا بادشاہ شیر ہوتا ہے اپنی حیثیت اور طاقت جانتے ہوئے جب یہ شیر ’’چالاک لومڑی‘‘ کو اپنا معاون بنالے تو جنگل میں وہ سب کچھ کرسکتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ جنگل کے اصول کے تحت وہ عام جانوروں کو خطرناک درندوں سے بچانے کے لیے ایسے فیصلے کرتا ہے کہ سب ہی مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن شیر کی نظر اپنے طے کردہ ہدف پر رہتی ہے وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہتا جب تک اپنے اصل دشمن کو بغیر کسی سخت قدم اٹھائے جنگل سے نہ بھگا دے۔ جنگل کے شیر کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرا اسی کا روپ دھار کر یا اس کی تصویر اپنے چہرے پر سجاکر آبادی پر یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہی اصل خیر خواہ لیڈر ہے۔ حالاں کہ جنگل کی آبادی کا بڑا سرمایہ اپنی چالاکی سے ہڑپ کرچکا ہوتا ہے۔
ان دنوں ہمارے ملک کی بھی ایسی ہی صورت حال ہے بس یہ سمجھنا تھوڑا آسان نہیں کہ کون شیر ہے اور کون لومڑی۔ وجہ شاید یہ ہے کہ جو آج شیر بن گیا اسے نظام چلانے کے لیے منتخب کسی نے نہیں کیا جب کہ آج کی ’’لومڑی‘‘ اس لیے طاقت ور لگتی ہے کہ اس کے فیصلوں کو طاقت ور شیر کی طرف سے مکمل حمایت حاصل ہے حالاں کہ یہ لومڑی ہمیشہ صرف ان ہی کی سنتی رہی جو اقتدار رکھتے تھے۔
خیر اب اپنے ملک کا جائزہ لیتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ کی حکومت اپنے رہنما میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد اپنے مستقبل سے مایوس لگ رہی ہے تاہم اس کے باوجود ایسا یقین ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ کسی غیر قانونی اقدام پر بھی کسی قسم کی کوئی عدالتی کارروائی تک نہ ہو۔ اس جمہوری حکومت کی یہ بھی کوشش لگتی ہے کہ احتساب کرنے والے اداروں کے ہاتھ باندھ دیے جائیں اس مقصد کے لیے قوانین بدلنے کی ضرورت پڑے تو وہ بھی پارلیمنٹ میں بل منظور کرواکر کردیا جائے۔ یہی نہیں اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکومتی اراکین پارلیمنٹ کی کوشش ہے کہ فوج سمیت تمام دفاعی اداروں کو براہ راست مکمل کنٹرول کرنے کے لیے ان کے افسران کی ترقیوں کے اختیارات منتخب پارلیمان کو مل جائیں۔ خواہش تو یہ بھی ہے کہ ججوں کی مدت ریٹائرمنٹ 60 سال سے کم کرکے 57، 58 سال کردی جائے۔
کاش ملک اور قوم سے مخلص حکمراں یہ بھی فیصلہ کرلیں کہ 60 سال بعد اور کسی بیماری کی صورت میں قومی، صوبائی اور سینیٹ کا الیکشن کے لیے بھی اہل نہیں ہوگا۔ گھر کا نظام چلانے کے لیے جس طرح چاق چوبند اور صحت مند شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ملک کے نظام کے لیے بھی ایسے افراد ہی اہل قرار دینے چاہئیں۔ ممکن اس تجویز کو تمام اراکین پوری قوت سے مسترد کردیں کیوں کہ پارلیمانی سیاستدانوں کی اکثریت عمر کے ساٹھ سال پورے کرچکے ہیں یا کرنے والے ہیں۔
60 سال عمر کے بعد تو ’’سٹھیا‘‘ جانا عام بات ہے اس کے باوجود کئی ’’سٹھیا جانے‘‘ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مگر اپنے آپ کو سیاسی میدان کے چمپئن سے کم کہلانے کے لیے تیار ہیں نہیں۔
سچ تو یہ بھی ہے کہ منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی عوام کی خدمت کا جو معاوضہ حاصل کرتے ہیں وہ بھی غیر منصفانہ اور غیر ضروری ہے۔ کئی اراکین نہ تعلیمی لحاظ سے اور نہ ہی دیگر صلاحیتیں کے حوالے سے ایک عام پاکستانی سے بھی کم ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کسی سردار ، جاگیردار، زمیندار اور صنعت کار سے کم نہیں سمجھتے۔ ایسے اراکین منتخب ایوانوں کو ایسا کلب سمجھتے ہیں جہاں اپنی مرضی سے تفریح کرنے اور وقت گزاری کے لیے جایا کرتے ہیں۔ اس لیے ضرورت تو یہ بھی ہے کہ منتخب اراکین کے ضابطہ اور بزنس رولز میں ترامیم کرکے انہیں ایسا بنایا جائے کہ ’’عوام کے خادم‘‘ خادموں جیسے حالات گزارنے لگیں۔
منتخب اراکین پر اپنے بیوی بچوں کے نام کل اثاثوں اور اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا پابند کیا جائے۔
پارلیمنٹ کو انہی معروف اختیارات تک محدود رکھا جائے جو مختلف ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہیں ان اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی اسی لحاظ سے نظرثانی کی جائے۔
رہی بات ریاستی و حساس امور انجام دینے والے اداروں کے افسران کی ترقیوں اور دیگر معاملات کے لیے پارلیمنٹ کو اختیارات دینے کی تو اس کی کوئی فوری ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہماری پارلیمنٹ اور منتخب ایوان اختیارات رکھنے کے باوجود ابھی تک عوام کی امنگوں پر پوری نہیں اتر سکی۔ اس لیے ایسی پارلیمنٹ پر مزید اختیارات کا بوجھ ڈالنے کے نتائج نقصان دہ ہی ہوں گے۔ منتخب اراکین کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں اضافے کی کوششوں پر توجہ دینے کے بجائے عوام کو خود مختار بنانے اور انہیں درپیش مسائل کے سدباب کے لیے اقدامات کرنا چاہیے۔