لعنت کا طوق

456

اللہ نے شیطان پر لعنت بھیجی تو وہ راندۂ درگاہ ہوگیا اور اگر اللہ کا کوئی بندہ کسی پر لعنت بھیجے تو پھر سارے تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اس کا نام لینا بھی گوارا نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ والدین بچوں پر لعنت بھیج دیں تو ان کے قول و فعل سے بھی دستبردار ہوجاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور شیخ رشید نے پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت بھیج دی ہے اور شیخ صاحب نے تو استعفا دینے کا بھی اعلان کیااور ڈنکا بجا بجا کر کیا مگر موصوف ابھی تک مستعفی نہیں ہوئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی لعنت کی گونج مدھم بھی نہیں پڑی تھی کہ موصوف نے ڈفلی پر یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ میرے ایک استعفے سے کیا فرق پڑے گا کسی حد تک ان کی بات میں معقولیت پائی جاتی ہے کہ اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا۔ البتہ تھوتھا چنا باجے گھنا کی بات الگ ہے۔ اپوزیشن سالار اعظم شیخ السلام طاہر القادری کا فرمان ہے کہ لعنت عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی اللہ کی رحمت سے محروم ہونے کی بددعا ہے۔ شیخ السلام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ایسا کام بی جمالو ہی کا شیوہ ہے۔ اس شیوہ طرازی کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید نے پارلیمنٹ کو اللہ کی رحمت سے محروم ہونے کی بد دعا دی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ الیکشن کمیشن اور آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ کیا وہ اب بھی پارلیمنٹ کی مراعات اور سہولتوں سے مستفید ہوتے رہیں گے یا اللہ کی رحمت سے محروم ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس کا فرمان ہے کہ پارلیمنٹ ہی سپر ادارہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب اس عظیم تر اور تقدس مآب ادارے پر لعنت ملامت کرنے والوں کے خلاف ازخود نوٹس لیتے ہیں کہ نہیں؟؟!!! مگر یہ بات یقینی ہے کہ مذکورہ حضرات کے گلے میں لعنت کا جو طوق پڑا ہے وہ کب اترے گا؟۔ کیا عوام متوقع الیکشن میں لعنت کا طوق اتار پھینکیں گے یا ان کے گلے کا ہار بنا رہے گا؟۔ اردو لغت کے مطابق لعنت بھیجنے کے معنی بُرا بھلا کہنا، نام نہ لینا، جیسے لعنت بھیجو کا مطلب ہے نام نہ لو، ذکر نہ کرو، جانے دو، داغ نے کہا تھا؂

وہ تو شیطان ہے بہکاتا ہے
غیر کے نام پر لعنت بھیجو

شیخ السلام طاہر القادری کے بارے میں ہم نے انہی کالموں میں کہا تھا کہ زرداری صاحب، عمران خان اور شیخ رشید نے طاہر القادری کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ شیخ السلام طاہر القادری نماز جنازہ تو پڑھا سکتے ہیں مگر جنازے کو کندھا نہیں دے سکتے۔ سوچنے کی بات یہ بھی کہ طاہر القادری سیاست دانوں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر ایوان اقتدار میں کیوں لے جائیں یوں بھی طاہر القادری اپنی تکذیب کیوں کریں گے؟ وہ جن لوگوں کو کرپٹ، بے ایمان، بے حیا اور بے غیرت جیسے غیر پارلیمانی خطابات سے نوازتے رہے ہیں انہیں اپنے کاندھوں پر کیوں سوار کریں گے؟ قادری صاحب بچے نہیں کہ ہزار روپے کا نوٹ چھوڑ کر ایک روپے والی ٹافی لے لیں البتہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ انہیں وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی جائے تو پھر وہ ایسے کھل سکتے ہیں جیسے رسا چغتائی کا محبوب کھلا تھا۔ ساری شرم و حیا تو ’’بند قبا‘‘ تک ہوتی ہے، سنا ہے ہمارے ایک باریش سیاست دان نے امریکا سے التجا کی تھی کہ اگر انہیں وزیراعظم بنادیا تو وہ کلین نہ سہی، ’’کلین شیو‘‘ ہو سکتے ہیں اور اب عمران خان نے بین السطور امریکا بہادر سے کہا ہے کہ انہیں وزیراعظم بنا دیا جائے تو وہ امریکا کی ہر کڑوی گولی خوش دلی سے نگل لیں گے۔ ہمارے ایک عزیز عمران خان کی محبت میں بُری طرح گرفتار ہیں کہتے ہیں عمران خان کا بلا جادو کی چھڑی ہے ایوان اقتدار میں جانے کی دیر ہے سب کچھ بدل جائے گا۔ بلّا ہر مصیبت کا سر کچل دے گا، آج ان سے ملاقات ہوئی تو بہت اداس، اداس دکھائی دیے ہمیں دیکھ کر ان کی آنکھوں میں جو خاص چمک لہراتی تھی دکھائی نہ دی۔ پوچھا خیر تو ہے؟ خیر ہی تو نہیں عمران خان دو شیخوں کے درمیان سینڈوچ بنتا جارہا ہے اور جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ انہوں نے پوری کری۔
پہلیاں مت بوجھو جو کچھ کہنا ہے صاف صاف لفظوں میں کہو کیوں کہ ہم ایک صاف ستھرے آدمی ہیں اور صاف ستھری باتیں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں یہ عمران خان کو شیخ رشید کی طرح پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے سمجھایا۔ سانپ تو نکل گیا اب لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ؟۔
لکیر کون بدبخت پیٹ رہا ہے؟ میں تو سر پیٹ رہا ہوں۔ یہ گزرا ہوا سانپ کہیں گزرا ہوا کل نہ بن جائے اور عمران خان پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے بجائے کرکٹ کلب بنا کر بیٹھ جائیں۔ کسی سیانے نے کہا تھا کہ آدمی سانپ کے ڈسے سے بچ سکتا ہے مگر اپنے کاٹے سے نہیں بچتا۔ کیا بچوں والی باتیں کررہے ہیں؟۔ اپنے آپ کو کون ڈس سکتا ہے۔ چاپلوسوں کے مشوروں پر یقین کرنا ان کے اشاروں پر چلنے والا کٹ پتلی بن جاتا ہے اور کٹ پتلی تماشے سے دل بہلایا جاتا ہے دل لگایانہیں جاتا۔