آزادی کا دریا

401

۔ 5فروری 2018 کشمیر کے شہدا سے یکجہتی کا دن ایک بار پھر ہمارے مقابل تھا۔ کیا لکھا جائے۔ ابتدائی چند سطریں لکھ کر ہم نے آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ مقبوضہ کشمیر حزب المجاہدین کے بائیس سالہ شہید کمانڈر برھان مظفر وانی اُس دنیا سے اپنے زخم چراغا ں کیے ہمارے خوابوں میں در آئے۔ ان کا غیور، جرات مند اور خوب صورت چہرہ اپنی جلتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ہماری سمت نگراں تھا۔ 8جولائی 2016 کو اننت ناگ میں بھارتی فوج اور مجاہدین کے درمیان خونریز جھڑپ میں وانی دیگر دو مجاہدین کے ہمراہ شہید ہوگئے تھے۔ ان کی شہادت تحریک آزادی کے تصورات کا سر چشمہ بن گئی۔ سرخ سپید چہرے اور چمکتی آنکھوں والے اس نوجوان کی شہادت نے روحوں کو بیدار کرنے والا وہ شور بلند کیا کہ اہل کشمیر ایک قوت بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان کے لہراتے جھنڈے، آزادی کے نعروں کی گونج سے لرزاں وادی، جذبہ جنون اور وانی کا جنازہ لاکھوں حریت پسندوں کو آزادی کی رمز سے آشنا کرتا چلا گیا۔ 2010ء میں اپنے بڑے بھائی خالد کو بھارتی فوج کے درندوں کے ہاتھوں شدید ترین تشدد اور اذیت سے دو چار دیکھ کر وانی کے اندر بھیگی ہوئی لکڑیاں سنسنائیں، چٹخیں اور پھر ان سے گرم اور تند ہوا کی وہ لپٹیں پیدا ہوئیں جنہوں نے 2010 سے تادم شہادت چھ سال تک وادی میں قابض بھارتی افواج کو حیران، پریشان اور صدموں میں جھونکے رکھا۔
ایک ایسی روشنی وانی کا احاطہ کیے ہوئے تھی جو ساری دنیا اور اس کی تاریکیوں کو منور کرسکتی تھی۔ لیکن وہ سرد چہرے اور افسردہ آنکھوں سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ ہم نے بات آغاز کر نے کے لیے اپنے کالم کی ابتدائی سطریں وانی کی طرف بڑھا دیں۔ لکھا تھا ’’چند ہزار یا چند لاکھ تنہا، نہتے اور پتھروں سے مقابلہ کرتے بے بس کشمیری بھارت جیسی بڑی طاقت اور اس کی آٹھ لا کھ خوانخوار اور درندہ صفت فوج کے خلاف کیا کر سکتے ہیں جب کہ وہ دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس ہوں لیکن اس جنگ کا حتمی نتیجہ کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے اور وہ ہے اہل کشمیر کی فتح، ان کی نصرت۔‘‘ وانی نے تحریر پر ایک نظر ڈالی اور کاغذ ہوا میں اڑا دیا۔
ہم نے وانی کی طرف دیکھا اور اس کے چہرے پر لکھے سوال کو بھانپ گئے۔ ہم نے کہا کہ ’’دیکھو وانی، پوری پاکستا نی قوم اہل کشمیر کے ساتھ ہے۔ فنکار دل سوزی سے کشمیر کے ترانے گا رہے ہیں۔ قلم کار ان کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ اس وقت جب کہ کشمیر میں بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے حکومت پاکستان اس صورت حال پر خاموش ہو کر نہیں بیٹھی ہے۔ دفتر خارجہ روز بیانات جاری کرتا رہتا ہے۔ ہماری حکومت، وزراء اور سیاسی قائدین آئے دن تقریروں میں گرجدار آواز میں کہتے رہتے ہیں کہ پر امن کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم کسی صورت قابل قبول نہیں۔ کشمیر میں شہید ہونے والے ہر بچے بچی کی شہادت کو ہمارے تمام ٹی وی چینلز بڑی سرگرمی سے ترجیحاً دکھاتے ہیں۔ انڈین فلموں کے ٹوٹے، اداکاراؤں کے جنسی اسکینڈل اور بالی وڈ کی دیگر خبریں ہمارے ٹی وی چینلز ہمیشہ کشمیری مجاہدین کی شہادت کی خبروں کے بعد ہی دکھاتے ہیں۔ اس برس بھی 5فروری کو دیکھ لو پورے پاکستان میں عام تعطیل ہے۔ اہل کشمیر سے یکجہتی کے اظہار کے لیے جگہ جگہ ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ جلسے اور جلوس ہورہے ہیں۔
ہماری اس گفتگو کے جواب میں وانی نے یاس سے پہلے ہماری طرف اور پھر اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا جن سے تازہ تازہ خون بہہ رہا تھا۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ بھارتی درندے ہم کشمیری مسلمانوں پر یہ مظالم اس وقت کررہے ہیں جب کہ ہمارے پڑوس میں، پاکستان میں، ایسی مسلم افواج موجود ہیں جن کا شمار دنیا کی ساتویں بڑی فوج میں ہوتا ہے لیکن بھارتی فوجوں کو ہرگز یہ خوف نہیں ہوتا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل عام، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی بھارتی درندوں کے ہاتھوں عزتیں تارتار ہونے پر کہیں یہ غیرت مند مسلم پاکستانی افواج حرکت میں نہ آجائیں۔ ہم نے کہا دیکھو وانی ہماری کچھ مجبوریاں ہیں۔ اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کا ایک مطلب امریکا کی ناراضی ہے۔ جب سے ٹرمپ صدر بنا ہے امریکا نے ہمیں دھمکیوں پر رکھا ہوا ہے۔ ہماری امداد بھی بند کر رکھی ہے۔ کابل میں دھماکے کے بعد افغان بھائیوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ ایران بھی ہم سے زیادہ بھارت کا دوست ہے۔ سعودی بھائی ویسے ہی ہم سے خوش نہیں ہیں۔ مغربی ممالک کے دل میں بھارت کا اتنا احترام جنم لے چکا ہے کہ وہ نریندر مودی کو مودی جی کہہ کر پکارتے ہیں۔ رہے چینی بھائی تو ان کے بھارت سے عظیم تجارتی مفادات ہیں۔ امریکی پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کے ’’فسادات‘‘ کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے چکے ہیں۔ ایسے میں تم خود سوچو ہم بھارت کو کسی مشکل میں ڈالنے کا تصور بھی کیسے کرسکتے ہیں۔ اور پھر ملک غیرت سے نہیں مفادات سے چلتے ہیں۔ الحمدللہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو اس کا بخوبی ادراک ہے۔ اسی لیے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے اسلام آباد دورے کے موقع پراسلام آباد کی شاہراہوں سے کشمیر میں رائے شماری سے متعلق بورڈز ہٹوا دیے تھے۔ ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری کو ہر پا کستانی کے دل میں ایک ہندوستانی اور ہر ہندوستانی کے دل میں ایک پاکستانی نظر آتا تھا۔ رہے نواز شریف تو وہ کسی اور ملک کی عزت کرنے پر اتنا زور نہیں دیتے جتنا بھارت کی عزت پر۔ یاد رکھو جب بھی اہل کشمیر کی طرف سے بھارت کے خلاف کوئی موثر مہم اٹھے گی اسے نا کام بنانے کی سب سے بھر پور کوشش پاکستانی قیادت کی طرف سے کی جائے گی۔ ان کے نزدیک اہل کشمیر نہایت قابل رحم اور گمراہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک ایسے کام کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے عالمی فضا جس کے لیے ناساز گار ہے۔ وانی نے اپنی نیلگوں آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور زمین پر پڑا وہ کاغذ کا ٹکڑا میری طرف بڑھا دیا جس پر لکھا تھا ’’چند ہزار یا چند لاکھ تنہا، نہتے اور پتھروں سے مقابلہ کرتے بے بس کشمیری بھارت جیسی بڑی طاقت اور اس کی آٹھ لا کھ خوانخوار اور درندہ صفت فوج کے خلاف کیا کر سکتے ہیں جب کہ وہ دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس ہوں لیکن اس جنگ کا حتمی نتیجہ کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے اور وہ ہے اہل کشمیر کی فتح، ان کی نصرت، کشمیر یقین کی سر زمین ہے۔‘‘
کشمیر کی تحریک تاریخ کا واہمہ نہیں ہے۔ بھارتی فوج کے ظلم و جبر کے ہتھکنڈوں اور بد ترین تشدد کے باوجود اس تحریک کا خاتمہ ناممکن ہے۔ بھارت سے نفرت اور آزادی کا عزم ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہورہا ہے۔ گزشتہ برس بھارت کی ایک خبر رساں ویب سائٹ کے نما ئندے نے مقبوضہ وادی میں جب بچوں سے یہ پوچھا کہ وہ بھارت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو بچوں کے جواب آزادی کی شمعیں روشن کرتے چلے گئے۔ بچوں کے جواب آپ بھی سنیے۔
13سالہ صفاف نثار: بھارت ایک پولیس فورس ہے جو بچوں کو مارتی ہے۔ مظاہرین کے نعرے سنتا ہوں تو میرا جی بھی یہی نعرے لگانے کو کرتا ہے۔
12سالہ ساون نسیم: بھارت ایک ظالم ملک ہے۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ ہمیں بھارتی فوج اور پولیس پر بالکل اعتبار نہیں۔
12سالہ دانش: بھارت نے ہم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ بھارتی فوج ہماری ہوتی تو کبھی ہم پر گولیاں نہ چلاتی۔ ہم بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔
بھارت نے وادی کشمیر میں جس طرح تشدد کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اس کے بعد اہل کشمیر کی آزادی کی جانب پیش رفت ناگزیر اور آزادی قریب تر ہے۔ یہ آزادی کا وہ دریا ہے جو اپنا راستہ خود بنا رہا ہے۔