سیاسی انتشار اور کشمیر سے محبت کے دعوے

359

پاکستانی قوم جس روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کررہی تھی اسی روز پاکستانی سیاست پر قابض رہنما اور ان کی پارٹیاں وہ ہنگامہ مچائے ہوئے تھیں کہ اہم قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کی خبروں، تجزیوں اور رپورٹوں میں کشمیر سے زیادہ نواز شریف، زرداری، عمران خان اور متحدہ قومی موومنٹ کے اختلافات نے جگہ پائی۔ ان میں سے کوئی سیاسی پارٹی یا رہنما یہ بات ماننے کو تو تیار نہیں ہوگا لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے ہنگامے کے نتیجے میں کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کی خبریں دب گئیں۔ یعنی یہ سارا شور کشمیر کا مسئلہ دبانے کے لیے تھا۔ تو کیا یہ پارٹیاں اور رہنما بھی بھارت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ انہیں بات معلوم ہو یا نہیں، نہیں لیکن ان کے اس رویے کے نتیجے میں بھارت کو فائدہ ہوا ہے ایک طرف تو شور شرابا ہے اور دوسری طرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا رویہ ہے۔ بڑے اخبارات کا اثر بھی بڑا ہوتا ہے ان اخبارات میں سابق صدر جناب آصف علی زرداری کا فرمان شایع ہوا ہے جسے پڑھ کر پاکستانی قوم کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئی ہوں گی۔ سرے محل کے مالک نے نواز شریف کو درندہ اور ناسور کہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ آصف زرداری نے کہاہے کہ نواز شریف قومی چور ہیں، انہیں مشرف کی طرح باہر نکالنا ہوگا۔ اتنا زبردست بیان ہے کہ اس پر کسی سیاسی طور پر باشعور ملک میں تو زرداری صاحب کو جلسے ہی میں کسی شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔ آج کل سب سے ہلکا رد عمل عراقی صحافی زیدی کا جوتا ہے جو بش پر پھینکا گیا تھا۔یہ جوتا مسلسل سفر میں ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما پر بھی اچھالا گیا۔ لیکن پاکستانی قوم اب ہر طرح کے دعوے برداشت کرنے لگی ہے۔ جنرل پرویز کے منہ سے جمہوریت کے دعوے آصف زرداری کے منہ سے چوروں کو پکڑنے اور نکالنے کے دعوے۔ میاں نواز شریف کیوں پیچھے رہتے انہوں نے بھی 5 فروری کو یہی دعویٰ کیا کہ میرے خلاف نا اہلی کا فیصلہ نہ آتا تو بیروزگاری ختم کردیتا۔ پاکستانی قوم نے یہ بیان بھی ہضم کرلیا۔ بلکہ اخبارات نے اچھالا اور تجزیہ نگار اس کا بھی تجزیہ کررہے ہیں کہ ہوتا تو ایسا ہی۔ کوئی یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ دو مرتبہ حکمران اور تیسرے دور کے ساڑھے چار سال سے زیادہ عرصے میں بیروزگاری ختم نہیں ہوئی لیکن جولائی 2017ء سے فروری 2018ء تک نامعلوم کون سا جادو استعمال کرتے کہ بیروزگاری ختم کردیتے۔ فیصلہ نہ آتا تو سب کے پاس مکان ہوتا۔ سب کو فوری اور سستا انصاف ملتا ۔ بڑے بڑے پروگرام تھے جن پر پانی پھر گیا۔ چونکہ ہمارے سیاست دان بولنے کے ماہر ہیں اس لیے بولتے وقت سوچتے نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ سوچتے ہیں کہ ایسی بات کہی جائے کہ میڈیا میں زیادہ سے زیادہ جگہ مل جائے، اب کوئی یہ بات نواز شریف صاحب سے پوچھے کہ آپ کے سارے بڑے بڑے منصوبے صرف 6ماہ میں کیسے پورے ہوجاتے۔ ہر ایک کے پاس مکان کس طرح ہوتا۔ کس چیز کا مکان بناکر دینا چاہتے تھے۔ یہ قوم کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ لیکن حکومت تو اب بھی ن لیگ کی ہے۔ اگر عدالت سے جھگڑا ہے تو اپنے معاملات درست کریں۔ کشمیر سے محبت کے دعوے سب ہی کرتے ہیں میاں صاحب نے بھی کشمیریوں سے یکجہتی کی ریلی سے خطاب کیا لیکن جس قسم کے بیانات دیے ہیں اس کے نتیجے میں کشمیر تو کہیں پیچھے چلا گیا یہ سب باتیں ہی سامنے آئیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سنجیدہ صحافت بھی دم توڑتی جارہی ہے ورنہ جناب آصف زرداری کے الفاظ اور ان کے معیار پر بھی گرفت کی جاتی۔ لیکن اب اس ملک میں اوئے نواز شریف، چور، درندہ، ڈاکو وغیرہ سب الفاظ آزادی سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ میڈیا میں زیادہ جگہ ملے ان کے نزدیک اب جو کچھ بھی ہے 2018ء کے انتخابات ہیں۔ سارا ہنگامہ انتخابی حکمت عملی کے تحت ہورہاہے۔ کسی کے دعوؤں کو جانچنے کا طریقہ تو یہی ہوسکتا ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے اور جائزے کا طریقہ یہ ہے کہ انتخابات سے قبل میاں نواز شریف نے جو وعدے کیے تھے ان کو سامنے رکھا جائے۔100 دن میں عافیہ کو لانے کا وعدہ، بجلی کا بحران ختم کرنے کا دعویٰ، بیروزگاری ختم کرنے کا دعویٰ۔ یہ سب اور کشکول پھینکنے کا دعویٰ۔ لیکن سب وعدوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر دوسرے کاموں میں لگ گئے۔ کشمیر آزاد کرانے کے بجائے مودی کی خوشنودی میں لگ گئے۔ پھر کشمیر کیسے آزاد ہوگا۔ صرف تقریروں سے تو اب تک ہوا نہیں۔ اخبارات اور سنجیدہ سیاست دان ان رہنماؤں کی زبان پر بھی گرفت کریں۔ یہ سارا ڈراما ملک کی دولت کو بیرون ملک لے جانے کے ماہر یہ رہنما ایک دوسرے پر الزامات لگاکر صرف قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ہاں اتنا ضرو ر ہوتا ہے کہ جوش خطابت میں ایک دوسرے کی چوریاں سامنے لے آتے ہیں۔ لیکن عوام کی جانب سے بے رخی، بے حسی یا اس معاملے میں عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ یہی لوگ گھوم پھر کر اقتدار میں آجاتے ہیں۔آصف زرداری شاہد بھول گئے کہ 5 اکتوبر 2008ء کو انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’کشمیر میں بھارتی فوج سے جنگ کرنے والے دہشت گرد ہیں‘‘۔ (وال اسٹریٹ جرنل) بیان بازی کے حوالے سے تحریک انصاف کے عمران خان بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انہوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہےؒ ۔ ویسے زبان کے غلط استعمال کے حوالے سے عمران خان کئی بار غلطی کرچکے ہیں۔ اب بھی اگر عوام نوٹس نہ لیں تو ان کے نصیب میں یہی لوگ گھوم پھر کر آتے رہیں گے۔