ریاست پاکستان کی حالت روز بروز پتلی سے پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں کوئی ملک قائم ہی نہیں رہ سکتا جس میں رہنے بسنے والے زبان، نسل، مذاہب، علاقائیت کے بے شمار اختلافات کے باوجود کسی ایک طرز معاشرت پر متفق نہ ہوجائیں۔ چین اگر کمیونزم پر اتفاق کرتا ہے تو روس سوشلزم پر، بھارت اگر جمہوریت پر ہے تو بے شمار ریاستیں مذہب، رنگ، نسل یا علاقائیت کی بنیاد پر اپنے وجود کے قیام کی ضمانت بنی ہوئی ہیں۔
مذہب پر بننے والی یا مذہب کے نام پر چلنے اور قائم ہونے والی ریاستوں کے لیے بھی اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ مسالک میں بٹی ہوئی نہ ہوں اس لیے کہ مسالک بھی کسی مملکت کی تقسیم کا باعث بن سکتے ہیں جیسا کہ ہم کئی اسلامی مملکتوں میں اس تقسیم کو بہت شدت کے ساتھ ابھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ایک ایسا خطہ زمین جس کو حاصل ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ وہاں اللہ اور اس کے رسول کا قانون نافذ کیا جائے گا، اس میں ایک دن کے لیے بھی اسلام کو نافذ نہیں کیا سکا۔
تاریخ اس بات کو کیسے فراموش کر سکتی ہے کہ برصغیر کے مسلمان اسلام کے شیدائی تھے اور ہیں، یہاں جب جب بھی کسی فرد نے اسلام کا نعرہ لگایا، برصغیر انڈوپاک کے مسلمان اس کے پیچھے ہو لیے اور کبھی یہ نہیں سوچا کہ نعرہ لگانے والا یا والے اسلام کے ساتھ مخلص بھی ہیں یا نہیں۔
اسلام سے والہانہ محبت اور اللہ کے دین کی احیا و قیام سے بے پناہ لگاؤ ہی تھا جو مسلم لیگ کو بام عروج تک پہنچانے کا سبب بنا اور اس میں اس وقت اور بھی جوش و ولولہ پیدا ہوگیا جب مسلم لیگ کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطہ زمین ضروری ہے۔ جوں ہی مسلمانوں کے کانوں میں یہ صدا گونجی کہ اب ہماری جدو جہد ایک ایسے خطہ زمین کے لیے ہوگی جس میں صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کا قانون چلے گا اور اس سرزمین کا نام ’’پاکستان‘‘ ہو گا، مسلمانان ہند مجنونوں سے بھی زیادہ مجنون بن گئے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب ان کو اس نعرے کی بہت ہی بھاری قیمت چکانہ ہوگی۔
مقصد اور نصب العین اگر نظروں کے سامنے ہو تو پھر جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور پھر ایسا ہی ہوا بھی کہ جان و مال اور عزت و آبرو کی پروا کیے بغیر مسلمانان ہند اس جہاد میں بصد رضا و رغبت شریک ہوئے اور آخر کا اپنے لیے ایک الگ خطہ زمین حاصل کر ہی لیا جسے پاکستان کہا جاتا تھا۔
دنیا کے دیگر بے شمار ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بے شمار قومیں پائی جاتی تھیں، بنگالی زبان بولنے والے تو اتنی واضح اکثریت میں تھے کہ وہ اس وقت کے پورے پاکستان کی آبادی کے آدھے سے بھی زیادہ تھے اور پھر یہ کہ وہ اس پاکستان سے جس کو آج ہم پاکستان کہتے ہیں ایک ہزار میل سے بھی زائد فاصلے پر تھے۔ اس دوری کو اگر کسی نے قربت میں بدلا ہوا تھا اور پاکستان کے دونوں بازؤں کو آپس میں یک جا کیا ہوا تھا تو وہ ایک ہی نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ورنہ ان کی کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی جو موجودہ پاکستانیوں سے ملتی جلتی ہو، ان کا رنگ، ان کی بود وباش، ان کا لباس، ان کی وضع قطع، ان کا قد کاٹھ، حتیٰ کہ ان کی زبان تک موجودہ پاکستان سے بہت مختلف، صرف ایک اسلام کا رشتہ تھا جو ان دونوں جسموں کو یکجا کیے ہوئے تھا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پچیس سال گزر جانے کے باوجود اس رشتے اور تعلق کا نفاذ اس ملک میں ایک دن کے لیے بھی نہ ہو سکا اور دوسرا ظلم یہ ہوا کہ عدل و انصاف کا معیار بھی ایسا نہیں ہو سکا جس کی بنیاد پر ان کو اپنے سے قریب رکھا جا سکے جس کا نتیجہ محض خرابی کے اور کسی صورت میں نہ نکل سکا۔ مشرقی پاکستان کے تین اطراف کو بھارت نے پہلے ہی گھیرا ہوا تھا، اسلامی نظام سے انحراف اور اس کے قیام سے لا تعلقی اور لسانی عصبیت کے فروغ اور بھارت سے سازش، رنگ اور بھی چوکھا کر گئی اور یوں قیام پاکستان کے پچیس برس بعد پاکستان کا ایک بازو پاکستان سے کٹ گیا۔ بدقسمتی در بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس کے باوجود ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے ایسا کیوں ہوا اور بجائے اس کے کہ ہم پاکستان میں نظامِ اسلام کی جانب پڑھتے اور ان مقاصد کے حصول کی جدو جہد کی جانب پیش قدمی کرتے جس کے لیے یہ مملکت حاصل کی گئی تھی، اس سے چشم پوشی کو اپنا شعار بنا لیا اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے دور ہوتے چلے گئے۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، اسلام سے دوری نے اس کو تقسیم کا شکار کیا اس کے باوجود یہاں بسنے والوں کے دلوں سے اسلام کی محبت نہیں گئی، جو تحریک ایوب خان کے خلاف چلی اس میں بھی روح رواں نعرہ اسلام ہی تھا، بھٹو کے خلاف بھی اسی نعرے نے قوم کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا، جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو اسی نعرے پر لاکھوں فرزندان توحید روس کے خلاف جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور تربیت یافتہ افواج سے بھی زیادہ مہارت اور جوش و جذبے سے نبردآزما ہوئے کہ نہ صرف روس کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کردیا بلکہ اتنی کاری ضرب لگائی کہ روس تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کے رہ گیا۔
اس نعرے کا سہارا لینے والوں کے بار بار کا ہرجائی پن نے قوم کو اتنا مایوس کیا کہ اب ریاست خطرے میں ہے کی بات کی جاتی ہے یا جمہوریت خطرے میں ہے کا رونا رویا جاتا ہے، اسلام کا نام لیتے ہوئے ہر پارٹی اجتناب کرتی ہے۔
اسلام کے بعد ریاست اور ریاست کے بعد جمہوریت کی باتیں اپنی جگہ، اب تو قوم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے یا فوجی آمریت، اس لیے کہ جب جمہوریت آتی ہے تو وہ اتنی بھاگوں بھری ہوتی ہے کہ لوگ مارشل لا کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور جب مارشل لا بھڑ کا چھتا ثابت ہوتا ہے تو لوگ جمہوریت میں اپنی عافیت ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اپنے عہد یعنی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کی جانب پھر بھی پلٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ملک میں احتساب کے نام پر تحریک، تحریک انصاف نے شروع کی تو صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ کو اپنے پختون ہونے کا غرور ہوگیا اور بزعم خود انہوں نے ہر جلسے، پبلک میٹنگز، اور پریس کانفرنسوں میں یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ وہ پٹھان ہیں اور غیور پٹھان ہونے کے ناتے اگر ان کو روگا گیا تو وہ پھر کوئی اور مطالبہ کر دیں گے۔
قوم حیران تھی کہ پھر اور کوئی مطالبہ کیا ہو سکتا ہے؟ گو کہ قوم اس لفظ کی گہرائی سے خوب اچھی طرح واقف ہے لیکن پھر بھی حسن ظن سے کام لیتے ہوئے خاموش تھی لیکن دماغوں میں گھسا ہوا غلیظ مادہ باہر آنا ہی تھا سو آگیا۔
یکم نومبر 2016ء صوبے کے وزیر اعلیٰ کے دل دماغ میں سمایا گند اس جلوس سے خطاب کے دوران جو اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھا باہر آہی گیا جس میں ان کی موجودگی میں یہ نعرے بہت واشگاف الفاظ و آواز میں کئی منٹ تک سنا، آزادی، لے کے رہیں گے آزادی، مانگ رہے ہیں آزادی، آزادی بس آزادی۔
یہ نعرہ پاکستان میں خود پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں ہے، بلوچستان میں بھی اس کی گونج سنی جاتی رہی ہے، سندھ میں بھی یہی آوازیں عرصہ دراز سے اٹھتی رہی ہیں اور کراچی میں بھی اس پر ایک ہنگامہ برپا رہا ہے لیکن ماضی کے صوبے سرحد میں یہ نعرہ پہلی مرتبہ بلند ہوا۔
جس طرح پختونوں نے ملک کے طول و عرض میں کئی کئی راتیں اس بات پر جشن منایا تھا کہ ان کے صوبے کا نام سرحد سے بدل کر خیبر پختون خوا رکھ دیا گیا ہے تو گویا یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ ہم پختون ہیں اور جب پختون ہیں تو پھر تقسیم کی جانب تو بڑھنا ہی تھا۔
بات یہ ہے کہ پاکستان جس نظریہ پر بنایا گیا تھا اس کا تو وصال 1947ء ہی میں ہو چکا تھا، اب اگر کوئی دوسری چیز اتفاق کا سبب بن سکتی تھی تو پاکستانی ہونا ہو سکتی تھی لیکن جب بنگالیوں کو اپنے بنگالی ہونے کا احساس ہوا تو وہ بنگالی ہو گئے۔ باقی ماندہ آبادی کو عبرت پکڑ کر اگر اسلام پر نہیں تو پاکستان پر ہی متفق ہوجانا چاہیے تھا لیکن اب جس تیزی کے ساتھ ہم علاقائیت اور لسانیت کی جانب بڑھ رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے (خدا نخواستہ) لگتا یوں ہے کہ بس ہم اب چند دن کے مہمان ہیں۔
میرے دماغ میں تو آزادی، آزادی، لے کے رہیں گے آزادی، کے نعروں کی گونج ہتھوڑے کی طرح برس رہی ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ میں اپنے پاکستان میں کھڑا ہوں یا مقبوضہ کشمیر کی وادی میں۔ بخشش اسی میں ہے کہ اپنے عہد کی جانب پلٹ آؤ، پکار نے والا تم کو پکار رہا ہے، حق کا دیا تم کو آوازوں پر آوازیں دے رہا ہے، پلٹ آؤ اپنے عہد کی جانب ورنہ اب تو تسبیح کا دھاگا کچے دھاگے سے بھی کہیں زیادہ خستہ ہو چکا ہے۔