عارف بہار
یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف نے مظفر آباد میں دو الگ تقریبات سے خطاب کیا۔ میاں نوازشریف نے یونیورسٹی گراونڈ میں ایک بڑے جلس�ۂ عام میں شرکت کی جب کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ راجا فاروق حیدر خان نے شاہد خاقان عباسی اور میاں نواز شریف دونوں کا ساتھ مختلف انداز میں نبھایا۔ قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس میں انہوں نے وزیراعظم کا خیرمقدم کیا اور کچھ دیر بعد جلسہ گاہ میں جا کر میاں نوازشریف کا خیر مقدم کرنے لگے۔ دونوں راہنماؤں نے آزادکشمیر کے مسائل اور ان کے حل کی بات مختلف انداز میں کی۔ گویا ہر دو جگہوں پر مسائل کے حل کا احساس وادراک موجود ہے۔ یک جہتی کے بڑے جلسے منعقد ہوگئے اور عوام نے کھل کر داد وتحسین سے بھی نوازدیا مگر اب آزادکشمیر کے حقیقی مسائل کے حل کا مرحلہ ہے۔ وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان اور مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کا سب سے اچھا اور پائیدار طریقہ یہی ہے۔ شاہد خاقان عباسی اس وقت وزیر اعظم ہیں، میاں نوازشریف پارٹی پر اپنی گرفت قائم رکھے ہوئے ہیں گوکہ میاں نواز شریف حکومتی منظر سے ہٹ چکے ہیں مگر سیاسی منظر پر موجود ہیں اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مسلسل اس موقف کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ نہیں اصل وزیر اعظم میاں نوازشریف ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت کے پاس آزادکشمیر کو دینے کے لیے ابھی کچھ وقت بھی ہے اور وسائل بھی ہیں۔ اس لیے آزادکشمیر کے عوام بہت بے تابی سے اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت اگلے چند ماہ میں آزادکشمیر کے بڑے مسائل کے حل کی طرف عملی پیش رفت کرے گی۔
میاں نوازشریف اپنی ایک حالیہ تقریر میں شاہد خاقان عباسی کو مفلوج وزیر اعظم قرار دے چکے ہیں مگر عملی صورت حال بتاتی ہے کہ وہ اس قدر بھی مفلوج نہیں بلکہ ایک فعال وزیر اعظم ہیں خود شاہد خاقان عباسی اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ میاں نوازشریف کے ہٹنے کے بعد فوج اور حکومت کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ ایک اور انٹرویو میں وہ عدلیہ کی توہین کرنے والوں کو معافی مانگنے کا مشورہ اور ان کی روش کو غلط قرار دے چکے ہیں۔ گویا کہ شاہد خاقان عباسی کے فوج اور عدلیہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں اور اس طرح وہ مفلوج نہیں بلکہ زیادہ مضبوط اور فعال وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ اس لیے آزادکشمیر کے بڑے مسائل کے حل کے لیے ان سے توقعات بے سبب نہیں۔ ان کی طاقت اور اچھے تعلقات کا فائدہ ان کے ہمسایہ علاقے آزادکشمیر کو بھی ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر نے کونسل اور اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں آزادکشمیر میں آئینی ترامیم کی بات تو کی مگر اس بات کا جواب نہیں ملا۔ آزادکشمیر کی آئینی ترامیم کا ایک مسودہ وزرات امور کشمیر کی راہداریوں کہیں گم ہوگیا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو چاہیے کہ برجیس طاہر کو ہدایت کریں تو وہ مسودہ تلاش کرکے اگلی منزلوں کی جانب ارسال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح نیلم جہلم جیسے میگا پروجیکٹس کے معاملات کو دونوں حکومتوں کے درمیان ضبط تحریر میں لایا جا سکتا ہے تاکہ آئندہ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ دوہرے ٹیکسوں کا معاملہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں احتجاج کی بنیاد بنا ہوا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی آزادکشمیر میں ایک لاعلاج عارضہ بن چکا ہے۔ آزادکشمیر کی معدنیات اور جنگلات اور ماحولیات وسیاحت کے تحفظ کے لیے بھی ٹھوس اقدامات اُٹھانا ناگزیر ہیں۔ اب وفاق میں بیٹھے گھاک شکاری آزادکشمیر کے ان وسائل پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ اس لیے اب وفاقی اور آزادکشمیر حکومت کے مابین سیاسی اور نظریاتی ہم آہنگی کا فائدہ عوام تک پہنچنا چاہیے۔
یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کا مشترکہ اجلاس اس لحاظ سے بھی اہم رہا کہ آزادکشمیر کی تاریخ میں پہلی بار آئینی طور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس میں تحفظِ ختمِ نبوت بل کی متفقہ طور پر منظوری دے دی گئی ہے جس کے بعد آزادکشمیر کی ستر سالہ تاریخ میں آئین میں قادیانی پہلی بار غیر مسلموں اقلیتوں کا حصہ تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ آزاد کشمیر انٹرم کانسٹیٹیوشن ایکٹ 2018 کے نام سے پیش کیے جانے والے اس بل میں قادیانیوں سمیت تمام غیر مسلم ادیان کی وضاحت کرتے ہوئے مسلمان کی تعریف کی گئی ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد قادیانی خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکیں گے۔ مسجد طرز کی عبادت گاہ تعمیر کرنے، اذان دینے اور تبلیغ کرنے پر پابندی ہوگی۔ جب کہ جملہ شعائر اسلام جن میں مسجد کے مینار اور اپنی عبادت گاہ پر کلمہ طیبہ سمیت تمام رسوم پر پابندی ہوگی۔ بل کی منظوری کے بعد وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان نے اس دن کو تاریخی قرار دیا۔ آزادکشمیر میں ستر کی دہائی میں سردار عبدالقیوم خان کے دور میں اسمبلی نے ایک قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا تھا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کی اسمبلی نے طویل بحث مباحثے کے بعد قادیانیوں کو باضابطہ طور پر غیر مسلم قرار دینے کے بل کی منظوری دی تھی۔