پنجاب میں گڈ گورننس کا ڈراما

340

متین فکری

پنجاب پاکستان کا سب سے اہم صوبہ ہے اور اس صوبے پر شریف خاندان گزشتہ تیس پینتیس سال سے برسراقتدار چلا آرہا ہے درمیان میں کچھ وقفہ بھی آیا، پیپلز پارٹی کے منظور وٹو بھی کچھ عرصہ اقتدار میں رہے اور مسلم لیگ (ق) کے چودھری پرویز الٰہی نے بھی جنرل پرویز مشرف کی بیعت میں اقتدار کا لطف اُٹھایا، لیکن سب سے طویل عرصہ اقتدار میاں شہباز شریف کا ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے سے پہلے بھی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور ان کے رخصت ہونے کے بعد بھی گزشتہ دس سال سے وزیراعلیٰ چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے صوبے میں اپنی ’’گڈ گورننس‘‘ کا چرچا کرنے کے لیے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو بلا مبالغہ اربوں روپے کے اشتہارات جاری کیے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اشتہارات کا مالی فائدہ میڈیا مالکان کو پہنچتا ہے لیکن شہباز شریف کارکن صحافیوں کی اہمیت سے بھی آگاہ ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض اشتہارات کے بل پر عوام کے دلوں میں گڈ گورننس کا رعب نہیں قائم کیا جاسکتا اس کے لیے صحافیوں کا تعاون بھی ضروری ہے جو اپنی خبروں میں ان کی گڈ گورننس کا چرچا کرتے رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقصد کے لیے انہوں نے صحافیوں پر بھی سرمایہ کاری کی ہے اور صحافیوں کا ایک مضبوط گروپ ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ شہباز شریف نے گڈ گورننس کے تاثر کو مزید گہرا کرنے کے لیے وزیراعلیٰ کے بجائے خادم اعلیٰ کا روپ دھار لیا ہے اور خود کو خادم اعلیٰ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ مقصد پنجاب کے عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ ان کے حاکم نہیں خادم ہیں اور دل و جان سے ان کی خدمت کررہے ہیں۔ اگر اس سارے عمل میں اخلاص ہو تو قدرت بھی اس کی قدر کرتی ہے لیکن اگر اس پر ریاکاری کا ملمع چڑھا ہو تو ایک نہ ایک دن اس کی اصلیت ظاہر ہو کر رہتی ہے اور قدرت چوراہے پر اس کا بھانڈا پھوڑ دیتی ہے۔ سانحہ قصور میں پنجاب کی گڈ گورننس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے اور یہ ڈراما بری طرح فلاپ ہوگیا۔ قصور صوبائی دارالحکومت لاہور سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ روزانہ اپنے کاروبار اور
ملازمتوں کے سلسلے میں قصور سے لاہور آتے جاتے ہیں۔ قصور میں ہونے والے ہر واقعے کی خبر آن واحد میں لاہور پہنچ جاتی ہے، پچھلے سال قصور میں معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی اور ان کے قتل کے آٹھ دس واقعات ہوئے، اخبارات میں ان واقعات کا چرچا بھی ہوا، الیکٹرونک میڈیا نے بھی ان واقعات کو اُچھالا لیکن خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس کو ان واقعات کی کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ پولیس روایتی تساہل، غفلت اور نااہلی کی چادر اوڑھے سوئی رہی اور معصوم بچیاں درندگی کی بھینٹ چڑھتی رہیں۔ اسی تسلسل میں آٹھ سالہ زینب کے قتل کا سانحہ رونما ہوا تو قصور کے لوگ پھٹ پڑے، احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے جیسا کہ عوامی احتجاج میں ہوتا ہے کچھ توڑ پھوڑ بھی ہوئی، پولیس نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشتعل مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرکے دو بے گناہ آدمی شہید بھی کردیے لیکن معاملہ پھر بھی نہ دبا اور مقتولہ زینب کے مظلوم والدین نے انصاف کے لیے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے اپیل کردی تو خادم اعلیٰ کو بھی جھرجھری آگئی۔ انہوں نے ’’فرض
شناس‘‘ پولیس افسروں کو فی الفور قاتل تلاش کرنے کا حکم دے دیا۔ قاتل کیسے پکڑا گیا، یہ ایک الگ داستان ہے۔ بہرکیف جب قاتل قانون کی گرفت میں آگیا تو خادم اعلیٰ اور ان کی گڈ گورننس کی پھرتی دیدنی تھی۔ انہوں نے اپنا ’’کارنامہ‘‘ بیان کرنے کے لیے فوری طور پر ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ زینب کے والد امین انصاری کو قصور سے لاہور لایا گیا اور خادم اعلیٰ نے انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر ایک مائیک اپنے سامنے رکھا اور ایک مائیک امین انصاری کے سامنے رکھ کر صحافیوں سے خطاب فرمایا اور اپنے کارنامے پر خوب داد وصول کی، یہاں تک کہ پریس کانفرنس میں تالیاں بھی بج گئیں اور تالیاں بجانے والوں میں خود خادم اعلیٰ بھی شامل ہوگئے، حالاں کہ یہ تالیاں بجانے کا نہیں شرمسار ہونے کا موقع تھا کہ وہ یہ کارنامہ قصور میں پہلی بچی کے قتل پر انجام دیتے تو قاتل مزید آٹھ نو معصوم بچیوں کے لہو سے ہاتھ نہ رنگ پاتا۔ امین انصاری خادم اعلیٰ کے پہلو میں بیٹھے کہنا چاہتے تھے کہ خادم اعلیٰ نے نہایت پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مائیک کا بٹن بند کردیا اور ایک سرکاری اہلکار نے مائیک بھی امین انصاری کے سامنے سے ہٹالیا۔ اس کے ساتھ ہی خادم اعلیٰ اُٹھ کھڑے ہوئے اور پریس کانفرنس ختم ہوگئی۔ ٹی وی چینلوں نے اس پریس کانفرنس کو ایڈٹ کرکے دکھایا اور مائیک بند کرنے اور اسے اُٹھانے کا سین پریس کانفرنس سے غائب کردیا لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں کون سی چیز چھپی رہ سکتی ہے، سوشل میڈیا نے سب کچھ وائرل کردیا اور خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس کا ڈراما بُری طرح فلاپ ہوگیا۔
خادم اعلیٰ سمجھتے ہیں کہ وہ لاہور میں پل اور انڈر پاسز تعمیر کرکے، میٹرو بس اور اورنج ٹرین چلا کر پنجاب کے عوام کی بہت خدمت کررہے ہیں لیکن شاید انہیں نہیں معلوم کہ انسانی جان کی حرمت اور حفاظت ان ترقیاتی منصوبوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے اور ان سب منصوبوں کو ایک انسانی جان پر قربان کیا جاسکتا ہے۔ خواہ یہ انسانی جان ایک بچی یا بچے کی ہو یا کسی بوڑھے یا جوان کی، ان کے شہر میں
کئی سال پہلے سولہ جیتے جاگتے انسانوں کا نہایت بے دردی سے لہو بہادیا گیا اور ماڈل ٹاؤن کی سرزمین اس لہو سے تر ہوگئی لیکن خادم اعلیٰ کو اس ہولناک واقعے کی بھی بروقت خبر نہ ہوسکی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین آج تک انصاف کے لیے ترس رہے ہیں۔ پنجاب میں جنسی جرائم کے علاوہ قتل و غارت گری اور ڈکیتی و رہزنی کے جو واقعات ہوتے ہیں ان کا بھی کوئی حساب نہیں ہے۔ خادم اعلیٰ ہر سنگین واقعے پر ہر متاثرہ خاندان کے پاس جا کر اس سے ہمدردی کا اظہار ضرور کرتے ہیں اور اسی کو وہ اپنی گڈ گورننس سمجھتے ہیں لیکن یہ گڈ گورننس نہیں متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ بینڈ باجا گروپ نے پورے پاکستان میں پنجاب کی ترقی کا ڈھول پیٹ رکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں انسانیت سسک رہی ہے، بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، صوبے میں کوئی تعلیمی پالیسی نہیں جس کے نتیجے میں ساٹھ فی صد پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھلے عام سرکاری قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کرپشن کا تو گلہ ہی کیا کہ وہ تو اب ہمارا کلچر بن گیا ہے، صوبے میں اقربا پروری اور من پسند لوگوں کو نوازنے کی وبا نے میرٹ کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔ یہ ہے وہ گڈ گورننس جس پر خادم اعلیٰ کو بہت ناز ہے۔ بڑے بھائی کے نااہل ہونے کے بعد وہ اب ’’خادم پاکستان‘‘ بننے کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔