ایم کیو ایم میں مزید تقسیم

605

ایم کیو ایم کے رکن کامران ٹیسوری کو فاروق ستار کی طرف سے سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر پارٹی میں مزید گروپ بندی ہوگئی اور عامرخان کی قیادت میں پوری رابطہ کمیٹی فاروق ستار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ کامران ٹیسوری جس تیزی سے ایم کیو ایم پاکستان میں داخل ہوکر آگے بڑھے ہیں اس پر پہلے بھی رابطہ کمیٹی کی طرف سے احتجاج ہوچکا ہے لیکن سب کی مخالفت کے باوجود فاروق ستار ان کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ گزشتہ منگل کو فاروق ستار اور عامر خان گروپ میں مذاکرات کے دو طویل دور ہوئے لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ رات گئے تک الگ الگ مشاورتی اجلاس بھی ہوئے۔ فاروق ستار نے اپنی قیام گاہ کے باہر طویل خطاب بھی کیا ۔ فاروق ستار کا کہناتھا کہ مسئلہ سینیٹ کے ٹکٹ کا نہیں اس سے کئی گنا زیادہ گمبھیر ہے۔ لیکن کیا ہے، اس کی وضاحت فاروق ستار نے نہیں کی۔ انہیں چاہیے تھا کہ اپنے ہی ساتھیوں کو اعتماد میں لے کر بتاتے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ کیا یہ مسئلہ خود عامر خان ہیں؟ عامر خان ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے قریب ترین ساتھیوں اور ایم کیو ایم کے تاسیسی ارکان میں سے تھے۔ الطاف حسین کسی کو دھمکانا چاہتے تو کہتے تھے کہ تمہیں عامر اور آفاق کے حوالے کردوں گا، یہ میرے شیر ہیں۔ اور پھر سب سے پہلے انہوں نے ہی الطاف حسین سے بغاوت کرکے ایم کیو ایم حقیقی کی داغ بیل ڈالی۔ عامر خان تو معافی مانگ کر جیل سے رہا ہوگئے، آفاق اب تک اپنی روش پر قائم ہیں۔عامر خان دبنگ شخص ہیں اور وہ فاروق ستار کی بالادستی قبول نہیں کریں گے۔ کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی معطل کرچکی ہے اور اکثریت کا مطالبہ ہے کہ کامران کی جگہ نسرین جلیل کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا جائے لیکن خود نسرین جلیل نے انکار کردیا ہے۔ فاروق ستار کا کہناتھا کہ اگر مجھے پارٹی کا سربراہ سمجھتے ہیں تو میرا فیصلہ قبول کرنا ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایم کیو ایم مزید تقسیم ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے مصطفی کمال پاک سرزمین پارٹی بناکر بیٹھ گئے ہیں اس طرح اردو بولنے والوں کے ووٹ تقسیم ہوں گے۔اس پر منظر میں پیپلزپارٹی دعویٰ کررہی ہے کہ اب وہ کراچی سے بھی جیتے گی۔ یہ تاثر عام ہے کہ سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ خفیہ ہاتھوں کا کام ہے لیکن سیاست دان اتنے بھولے کیوں ہیں؟