عدالت سے میاں صاحب کا گریز

358

نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جارحانہ موڈ میں آ گئے ہیں اور جوں جوں قانون کا شکنجہ تنگ ہو رہا ہے وہ کھل کر عدالت عظمیٰ کے مقابلے میں آ گئے ہیں ۔ ان کے ایک ساتھی نہال ہاشمی کو توہین عدالت اور جے آئی ٹی کے ارکان اور ان کے بچوں کو دھمکیاں دینے پر صرف ایک ماہ کی سزا ہوئی ہے ۔ اس پر میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شدید برہم ہیں ۔ عدالت نے طلال چودھری اور دانیال عزیز کو بھی توہین عدالت کے الزام میں طلب کر لیا ہے لیکن میاں صاحب اپنے ساتھیوں کی طرف سے کھلم کھلا توہین عدالت کو تسلیم کرنے ہی پر تیار نہیں ہیں ۔ اور تیار بھی کیسے ہوں کہ وہ خود اور ان کی صاحبزادی بھی یہی کچھ کرتے پھر رہے ہیں ۔ آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت انہیں نا اہل قراردیا گیا تھا لیکن ابھی یہ تعین کرنا باقی ہے کہ نا اہلی کی مدت کتنی ہو گی ۔ نواز شریف نے عدالت عظمیٰ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے فریق بننے سے انکار کر دیا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے انتباہ کیا ہے کہ ایسی صورت میں یکطرفہ کارروائی کی جائے گی اس سے یہ واضح ہے کہ میاں صاحب عدالتوں کا احترام کرنے پر تیار نہیں ۔ ان کی خواہش یہ نظر آ رہی ہے کہ عدالت ان کو مزید کوئی سزا سنا دے جسے لے کر وہ پھر جلسوں میں جا سکیں اور عدالت کے خلاف ان کی تقریروں میں مزید تلخی آ جائے ۔ میاں صاحب کو خوب اندازہ ہے کہ ایسے میں ان کی حمایت بڑھ جائے گی ۔ میاں نواز شریف کے خلاف پارٹی صدارت کا مقدمہ بھی چل رہا ہے ۔ ایک نا اہل شخص کو حکمران پارٹی کی صدارت تفویض کرنے پر کئی درخواستیں عدالت میں دائر کی گئی ہیں تاہم نواز شریف نے اس کیس میں بھی فریق بننے سے انکار کر دیا ہے ۔ میاں صاحب اب تک یہ پوچھتے رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ۔ اب ان کا رویہ یہ ہے کہ عدالت جو چاہے کرے ، مجھے کوئی پروا نہیں ۔ جب تین بار وزیر اعظم بننے والے اور حکمران جماعت کے منتخب صدر کا عدالتوں کے بارے میں یہ رویہ ہو تو عام آدمی پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ نواز شریف نے گزشتہ منگل کو بھی دوہرایا کہ ان کو نا اہل قرار دینا ترقی روکنے کی سازش تھی ۔ ان کو نا اہل عدالت عظمیٰ نے قرار دیا تھا اور نواز شریف کے کہنے کا واضح مطلب ہے کہ ان کے خلاف سازش عدالت عظمیٰ نے کی ہے۔ مزید فرمایا کہ وقت ثابت کرے گا کہ میرے خلاف انتقامی کارروائی ہورہی ہے۔ میاں نواز شریف کو جولائی 2017ء میں نا اہل قرار دیا گیا جب وہ اپنے تیسرے دور اقتدار کے ساڑھے چار سال گزار چکے تھے۔ اس عرصے میں ملکی ترقی کا بڑا حصہ تو پائے تکمیل کو پہنچ چکا ہوگا۔ کیا میاں نواز شریف کسی موقع پر وضاحت کریں گے کہ ان ساڑھے چار سال میں ملک نے کس کس شعبے میں اور کتنی ترقی کی جو گزشتہ چھ ماہ میں رک گئی۔ لیکن حکومت تو اب بھی ن لیگ کے پاس ہے جس کے صدر میاں نواز شریف ہیں اور جن کو انھوں نے وزیراعظم کی نوکری دی ہے وہ تو کھلم کھلا کہہ چکے ہیں کہ میرے وزیراعظم تو نواز شریف ہیں۔ پھر ترقی رکنے کا کیا سوال ہے اور یہ کیسی انتقامی کارروائی ہے جس میں سب کچھ تو نا اہل قرار دیے گئے ایک شخص اور اس کے حواریوں کے ہاتھ میں ہے۔ نواز شریف کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے سے انکار پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاہے کہ نواز شریف نے نوٹس تو وصول کرلیا، اگر وہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو ان کی مرضی، دائر درخواستوں پر آئین و قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنادیں گے اور اس کے بعد میاں نواز شریف کہتے پھریں گے کہ ان کے خلاف ایک اور سازش ہوگئی ہے۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ عدالتوں کا سامنا کریں، منہ چھپانا ان کو زیب نہیں دیتا۔ اگر مسلم لیگ ن کی صدارت ان سے چھن گئی تو بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وزیراعظم خاقان عباسی کی طرح ن لیگ کے دیگر لوگ بھی یہی کہیں گے کہ ہماری پارٹی کے صدر تو میاں نواز شریف ہی ہیں۔ نواز شریف نے گزشتہ دنوں اعلان کیا ہے کہ اب وہ ہر شخص کو مکان دیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتخابی نعرہ ہے جس پر عمل نہیں ہوسکے گا۔ بے مکان لوگوں کا خیال انہیں اب آیا ہے، ساڑھے چار سال میں یہ خیال کیوں نہیں آیا۔ میاں صاحب کو یاد تو ہوگا کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ دیا تھا جس کا مقصد صرف ووٹ حاصل کرنا تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنے دور اقتدار میں کسی کو روٹی، کپڑا دیا نہ مکان۔ پھر اس کے بعد بھی دو بار بے نظیر بھٹو اور 5 سال کے لیے آصف زرداری حکمران رہے مگر اس نعرے کو عملی شکل نہیں دی گئی۔ یہ ضرور ہوا کہ بہت سے لوگوں سے یہ سہولتیں چھین لی گئیں۔ البتہ جیل میں ڈال کر تینوں سہولتیں سرکار کے خرچ پر فراہم کردی گئیں۔ میاں نواز شریف ہر ایک کو گھر دینے کا اعلان کررہے ہیں۔ اب امید کرنی چاہیے کہ وہ یہ وعدہ یاد رکھیں گے ورنہ وہ بڑے زود فراموش ہیں۔ لیکن ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے لیے عدلیہ اور معزز ججوں کی توہین کرنا کیا ضروری ہے؟ کیسی عجیب بات ہے کہ میاں نواز شریف نے عدل کی بحالی کی تحریک بھی چلا رکھی ہے جب کہ حکومت بھی ان ہی کی ہے تو کیا وہ اپنی حکومت کے خلاف تحریک چلارہے ہیں؟ ان کی صاحبزادی مریم نواز جڑانوالہ کے جلسے میں طلال چودھری کی وفاداری کو سلام پیش کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ عدل کی بحالی کی نواز شریف کی جنگ میں ہم تمام عوام کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔عدالتوں سے گریز کرنے والوں نے عوام کی عدالت لگائی ہوئی ہے۔ نواز شریف صاحب کم از کم اپنی صاحبزادی کو تو توہین عدالت سے روکیں۔ طیش میں آنا اچھے سیاست دان کی خوبی نہیں خرابی ہے۔