فرشتے یہاں پہرہ دیتے ہیں

432

بابا الف کے قلم سے

صاحبو! جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں دنیا بھر میں پناہ گزین بچوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زاید ہے۔ ان بچوں کی حالت اور حالات پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا جی اس قدر بھر کر نہ آتا ہوگا جتنا دینی مدارس کے طلبہ کے غم میں ہمارے میڈیا کے کلیجے پر گھونسے چلتے ہیں۔ دینی مدارس کے حوالے سے ادھر کہیں ذرا سی چوں چوں ہوئی میڈیا کی پِتّی اچھلنے اور ہاتھ میں چُل اٹھنے لگتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جن دنوں آپریشن ضرب عضب، ردالفساد اور نہ جانے کون کون سی مہمات زوروں پر تھیں ان دنوں ہمارے میڈیا کی نظر میں دینی مدارس دہشت گردی کے اڈے اور دینی مدارس کے طلبہ دہشت گرد تھے۔ آج جب کہ بچوں سے زیادتی اور تشدد کی خبروں سے ٹی وی چینلز برسات میں مینڈک سے بھرے ہوئے نالے کا منظر پیش کررہے ہیں میڈیا سوگنی طاقت کی دوربین لیے دینی مدارس میں کسی واردات کی تلاش میں بولایا بولایا پھرتا نظر آرہا ہے۔ پچھلے دنوں پنجاب حکومت کی طرف سے بچوں کی مار پیٹ پر پابندی لگائی گئی تو یہ ایک عمومی بات تھی لیکن ہمارے ٹی وی چینلوں نے بڑے جوش وخروش سے یہ نکتہ اٹھایا کہ کیا دینی مدارس بھی اس پابندی میں شامل ہیں۔ اس خیال کو اس طرح پیش کیا گیا گویا دینی مدارس ہی بچوں پر تشددکی اصل آماج گاہ ہیں۔ کیا فتنے کی اس اصل جڑ کا تدارک بھی پنجاب حکومت کی پابندی میں شامل ہے۔ ایک میزبان خاتون نے اس خیال شریف کو لے کر پورا پروگرام ترتیب دے دیا۔ ایک مفتی صاحب کو بھی اس پروگرام میں مدعو کر لیا گیا۔ مدارس کا ذکر کرتے وقت اینکر پرسن کے سوال اور لہجے میں اتنے پیچ اور کینہ تھا کہ بس بارودی سرنگیں بچھانے کی کسر رہ گئی تھی۔ سوال ملاحظہ فرمائیے۔ ’’اسکولوں کے لیے تو احکامات سامنے آگئے ہیں کیا مدارس اس پابندی کو تسلیم کرلیں گے کہ بچوں کو نہیں مارنا چاہیے۔‘‘ سوال میں پوشیدہ شرارت کو محسوس نہ کرتے ہوئے مفتی صاحب بچوں کو نہ مارنے کے حق میں قرآن وسنت سے دلائل دینے لگے۔ مفتی صاحب کا جواب اتنا مکمل تھا کہ اس کے بعد کسی سوال کی مزید گنجائش نہیں تھی لیکن اینکر پرسن کا اگلا سوال تھا ’’کیا دیگر مفتیان کرام مانیں گے اس فیصلے کو‘‘؟ انداز ایسا تھا کہ چلیے آپ تو مان گئے لیکن من حیث الجماعت باقی مولویوں کو بچوں کے مارنے سے کون روکے گا؟
ہمارے میڈیا یا سوشل اور لبرلز افراد کے اجتماع میں دینی مدارس، وہاں تعلیم دینے والے اساتذہ، تحصیل علم میں مصروف بچوں کے بارے میں اس طرح گفتگو کی جاتی ہے جیسے یہ وہ جاہل، جنگلی اور تہذیب وشائستگی سے نابلد جانور ہیں جنہوں نے انسانوں کا بھیس بدلا ہوا ہے۔ یا پھر الٹی چال چلتے ہوئے بڑے ہی دلگیر لہجے میں یہ کہا جاتا ہے کہ مدارس کے طالب علم وہ مفلوک الحال، مسکین اور بے آسرا بچے ہیں جنہیں مدارس کے اساتذہ نے زنجیریں ڈال کر رکھا ہوا ہے۔ انہیں جدید تہذیب کی کوئی خبر ہے اور نہ اس بدلتی دنیا کی۔ بدرنگ کپڑوں، سر پر منڈھی ہوئی ٹوپیوں، مونڈے ہوئے سروں، ٹخنوں سے اوپر اٹھی ہوئی شلواروں اور بڑھی ہوئی ڈاڑھیوں کے ساتھ یہ طبقہ اس سماج کے سینے پر وہ دھبا ہے جو پھیلتا ہی جارہا ہے۔ ان اندھوں بہروں اور جاہلوں کی خدمت میں ایک ہی گزارش ہے کہ کچھ دن کسی مدرسے میں گزار کر دیکھیے آپ پر حقیقت واضح ہوجائے گی۔
دینی مدارس کی پہلی بات جو دامن دل کو کھینچتی ہے وہ ادب اور تعظیم کا ماحول ہے۔ برصغیر میں ادب اور تعظیم کی روایات مغلوں کی دین ہیں۔ دینی مدارس نے ان روایات کو دین سے آمیز کرکے تقدیس کا وہ ماحول تخلیق کیا ہے کہ انوار وبرکات ان مدارس کے پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ اساتذہ کی عزت وتکریم، دھیمی آواز میں گفتگو کرنا، بڑوں کو دیکھ کر احترام سے ایک طرف ہوجانا، سلام میں پہل کرنا، بزرگوں کے مقابل نظریں نیچی رکھنا اور سب سے بڑھ کر صاف ستھرا، جسم کی پردہ پوشی کرنے والا، شان وشوکت اور دبدبے والا لباس۔ اساتذہ کی طالب علموں پر شفقت کیا ہوتی ہے دینی مدارس میں آکر دیکھیے۔ ’’علم والوں سے پوچھو اگر معلوم نہ ہو‘‘ علم والوں کا اطلاق اگر کہیں ہوتا ہے تو وہ دینی مدارس کے اساتذہ ہیں۔ عجز وفقر سے آراستہ، بردبار اور سراپا ریشم۔ یہ کہنا یکسرغلط ہے کہ دینی ماحول میں نکتہ نظر کے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ گنجائش ہے اور سب سے زیادہ ہے بس روایت سے کلی اور علی الاعلان انحراف نہ ہو۔
علم کے حصول میں دینی مدارس کے طالب علموں کی محنت دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے۔ ڈاکٹری، انجینئرنگ اور پی ایچ ڈی کے طالب علم اس کی چوتھائی محنت نہیں کرتے جتنی مدارس کے طالب علم تکلیف دہ ننگے فرشوں، دریوں اور چٹائیوں پر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ جسم وجان کو گھُلا دینے والی (جاں گزا اور جاں گسل) جدوجہد، لیکن اس کے باوجود انتہا درجے کی سادگی، راست بازی اور بھولپن۔ رویوں میں مصنوعی بناوٹ نہ دکھاوا۔ تفاخرنہ تکبر۔ باہم کوئی چپقلش نہ نفرت وعناد۔ سب ایک دوسرے کے خیرخواہ، ایک دوسرے کے دوست۔ عبادت کے پابند، سحر خیز، قانع، شکر گزار اور شاکر۔ سراپا خدمت، سراپا درد۔
دینی مدارس کے اساتذہ کی تنخواہوں پر نظر کیجیے تو حیرت ہوتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ کا تو لوگ ہوٹل میں ایک وقت میں کھانا کھا لیتے ہیں لیکن کبھی معاشی تنگی کا شکوہ نہ چہرے پر پریشانی کے سائے۔ ہمہ وقت ہشاش بشاش، مسکراتے، ہنستے بولتے۔ نہ کسی سے خفا نہ دل میں اور ہونٹوں پہ حرف شکایت۔ اپنے کام سے نالاں اور نہ دل گرفتہ۔ درس کے لیے جماعتوں میں وقت پر جانا۔ دوران تدریس ایسا انہماک کہ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے بھی ایسی دلجمعی سے کم ہی پڑھاتے ہوں گے۔ جسم وجان کو توڑ دینے والی مہنگائی میں ہم نے ایک استاد سے کم تنخواہ میں گزارے کے حوالے سے حیرت کا اظہار کیا تو محرومی کا رونا رونے اور احساس کمتری کا شکار ہونے کے بجائے بولے ’’یہ میرے ربّ کا فیصلہ ہے۔ اس محرومی میں بھی لطف کے ہزاروں سامان ہیں۔ ایک محرومی دے کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نہ جانے کتنے امتحانوں سے بچایا ہوا ہے۔‘‘ کم تنخواہ کے باوجود آپ کوئی ایک واقعہ نہیں سنا سکتے جس میں دینی مدرسے کے استاد نے اپنے روحانی اور اخلاقی وجود کو حرام سے آلودہ کیا ہو۔
یاد رکھیے ہوا اور پانی کی طرح ان دینی مدارس کی بھی معاشرے کو انتہائی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ’’ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سوسال کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا‘‘۔ ایک سائنس دان اور مفکر کو ہم فکر معاش سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے اصل کام پر توجہ دے سکے۔ لیکن وہ جو انسان، کائنات، زندگی اور موت کے عقدے حل کررہے ہیں، اپنی زندگیاں معاشرے کی فلاح کے لیے وقف کرچکے ہیں انہیں معاشی فراغت دینے کو ہم نے احسان اور طعنہ بنادیا۔ دینی مدارس کو بے توقیر مت کیجیے۔ پورا معاشرہ ان کا مقروض ہے اتنا کہ ان کے احسان کے آگے گردن نہیں اٹھا سکتا۔
۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔