جعلی ڈگری کیس عدالت عظمٰی کا 3ہفتے میں فیصلہ سنانے کا حکم

156

اسلام آباد(مانیٹر نگ ڈ یسک+خبر ایجنسیاں) ایگزیکٹ جعلی ڈگری ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ٹرائل کورٹ کو ملزمان کی ضمانت منسوخی کا فیصلہ 2 ہفتے میں کرنے کا حکم دینے کیساتھ ساتھ سندھ ہائی کورٹ کو ایگزیکٹ مقدمات کا فیصلہ 15 روز جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو 3 ہفتے میں مقدمے کا فیصلہ سنانے کی ہدایت کردی۔عدالت عظمیٰ نے ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب شیخ اور دیگر 6 ملزمان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم اس یقین دہانی کے بعد واپس لے لیا کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بینچ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے ۔چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹ ایک کمپنی ہے؟ اور یہ کب سے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ ہے؟۔بشیر میمن نے جواب دیا کہ یہ کمپنی جولائی 2006ء سے پہلے سے رجسٹرڈ ہے اور اس کا ہیڈ آفس خیابان اقبال کراچی میں ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ایگزیکٹ کا بزنس کیا ہے؟۔ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ سافٹ وئیر کی ایکسپورٹ کا بزنس ظاہر کیا گیا ہے، ایگزیکٹ کے 10 بزنس یونٹس ہیں۔ بشیر میمن نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ایگزیکٹ کی 330 یونیورسٹیاں تھیں اور اس کا 70فیصد ریونیو آن لائن یونیورسٹیوں سے آتا ہے۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ تجربے پر ایگزیکٹ والی ڈگری ایک گھنٹے میں مل جاتی تھی۔جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میرا قانون کا تجربہ ہے کیا مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے؟،انگلش میری اتنی اچھی نہیں ہے۔بشیر میمن نے جواب دیا کہ تجربے کی بنیاد پر آپ کو قانون اور انگلش کی ڈگری مل سکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہے؟۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ایگزیکٹ کا اپنا پلیٹ فارم ہے جو ایکریڈیٹیشن بھی کرتا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایگزیکٹ والے ایکریڈیٹیشن کیسے کر سکتے ہیں؟۔بشیر میمن نے جواب دیا کہ جناب ایگزیکٹ نے ویب پیج بنا کر ایکریڈیٹیشن شروع کی ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یونیورسٹیاں تو کسی قانون کے تحت بنتی ہیں۔ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ کام 2006ء سے ہو رہا ہے، 2006ء سے 2015 ء تک یہ کاروبار ہوتا رہا، اگر یہ درست ہے تو لوگوں سے فراڈ ہوا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جب میڈیا میں خبریں آئیں تو ایف آئی اے نے معاملات کو دیکھنا شروع کیا، اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے ایف آئی اے کیا کر سکتا ہے؟۔ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ اسلام آباد کے مقدمے میں ملزم بری ہو چکے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے نے ثبوت پیش کیے؟۔بشیر میمن نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل زیر التوا ہے۔سماعت کے دوران رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ اپیل کو 22 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس جج کے سامنے کیس لگایا گیا ہے؟۔ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے جواب دیا کہ جسٹس اطہر من اللہ ایگزیکٹ کیس سنیں گے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن کوشامل کریں۔ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ3 ہفتے میں ایگزیکٹ کیس کا فیصلہ کرے۔اس موقع پر چیفجسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات زیرالتوا کیوں ہیں؟۔ساتھ ہی انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کو آئندہ ہفتے پیر سے فوری بینچ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ ایگزیکٹ مقدمات کا 15 روز میں فیصلہ دے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عوام میں افواہیں تھیں کہ اسلام آباد عدالت کے جج نے ضمانت کے پیسے لیے، اس جج کا نام کیا ہے اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہورہی ہے؟۔رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے آگاہ کیا کہ جج کا نام پرویز القادر میمن ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جج تو آپ کی برادری کانکل آیا۔بشیر میمن نے جواب دیا کہ یہ میرا عزیز ہے لیکن میں شرمندگی محسوس کرتاہوں۔سماعت کے دوران رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کے عدالت عظمیٰ میں پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ خود کیوں تشریف نہیں لائے؟ ،یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ پیر تک رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ وضاحت دیں کہ عدالتی حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی۔ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ہمارا مرکزی کیس کراچی میں ہے۔عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ ملزمان تعاون نہیں کرتے تو استغاثہ ضمانت منسوخی کی درخواست دے اور ٹرائل کورٹ 2 ہفتے میں ضمانت منسوخی کافیصلہ کرے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماتحت عدلیہ اور ہائی کورٹ سے ملزمان کاعدم تعاون برداشت نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ میرے ملک کے لیے شرمندگی کا معاملہ ہے، اپنی قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔