ایک نئے علاقائی اتحاد کے خدوخال 

444

امریکا میں پاکستان کی امداد روکنے کا بل کانگریس میں پیش کر دیا گیا ہے۔ مارک سین فورڈ اور تھامس ماسی نامی ارکان کانگریس کی طرف سے پیش کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی غیر عسکری امداد بھی روک دی جائے اور اس رقم کو امریکا کے ترقیاتی شعبوں پر خرچ کیا جائے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ امداد روکنے کی وجہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔
امریکی حکومت بظاہر پاکستان کی فوجی امداد روکنے کا عندیہ دے چکی ہے مگر وزیر داخلہ احسن اقبال ان دنوں واشنگٹن ڈی سی کی راہداریوں میں گھوم رہے ہیں۔ احسن اقبال نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لابیوں کی طرف سے یا ذاتی حیثیت میں امداد روکنے کا بل پیش کیا جانا الگ مگر امریکی حکام نے پاکستان کی امداد روکنے کا اشارہ نہیں دیا۔ چند دن قبل تک پاکستان کی طرف سے امریکا کی ہر قسم کی امداد سے چھٹکارے کی بات کی جارہی تھی۔ پاکستان کے عسکری حکام ہی نہیں سول حکومتی شخصیات بھی یہ کہہ رہی تھیں کہ امریکا سے انہیں امداد نہیں صرف عزت اور اپنی قربانیوں کا اعتراف درکارہے۔ اب وزیر داخلہ امریکا سے ’’خوش خبری‘‘ سنا رہے ہیں کہ پاکستان کی امداد بند نہیں کی جا رہی صرف یہی نہیں احسن اقبال نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ امریکا پاکستان کے اندر حملوں کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ امریکا پاکستان کے اندر خود تو شاید حملے نہ کرے مگر سی آئی چیف کی دہلی میں سرگرمیاں، را، موساد، سی آئی اے اور این ڈی ایس کے چوکور اتحاد کا پتا دے رہی ہیں۔ یہی چوکور پاکستان کے خلاف کنٹرول لائن پر سرگرم ہو سکتی ہے۔ دہلی میں پکائی جانے والی اسی کھچڑی کی جانب کورکمانڈر کانفرنس میں واضح موقف اپنایا گیا ہے کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی بھارت کی طرف سے کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کا دوٹوک اعلان کیا گیا ہے۔ کورکمانڈر ز کے اجلاس میں امریکا کے ساتھ پیدا ہونے والے سیکورٹی مسائل کا جائزہ بھی لیا گیا۔ اسلام آباد میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، روس اور چین کا اتحاد کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں۔ داعش کے خاتمے کے لیے روس کا کردار قابل تحسین ہے۔ چین کی دوستی ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین نکتہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس افغانستان میں پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ روس وسط ایشیا میں استحکام چاہتا ہے۔ ماسکو افغانستان میں استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کا معترف ہے۔
روس، چین اور پاکستان کے ایک علاقائی اتحاد کی بات تو تجزیہ نگاروں کی طرف سے کی جاتی ہے مگر فوج کے ایک اعلیٰ ترین عہدیدار کی طرف سے اس اتحاد کی حقیقت کا اظہار مستقبل کی صورت گری کو کچھ اور واضح کر گیا۔ چین اور روس دنیا ہی کی نہیں اس خطے کی بہت اہم طاقتیں ہیں۔ دونوں افغانستان سے براہ راست متصل بھی ہیں۔ دونوں طاقتوں کا پاکستان کی افغان پالیسی پر اعتماد کا اظہار بتارہا ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکا کا بیانیہ اور حکمت عملی واحد سچ اور آخری حقیقت نہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ افغانستان سے متصل ملک پاکستان، ایران، روس اور چین ایک مشترکہ نقطے پر کھڑے ہیں جب کہ افغانستان کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور امریکا اور افغانستان کے ہمسائے کا ہمسایہ بھارت ایک الگ ہی لائن لیے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں بدامنی اور فساد کی پہلی اور سیدھی زد ہمسایوں ہی پر پڑتی ہے اور پاکستان اس صورت حال میں سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ افغانستان کے اثرات وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچتے ہیں جس کے بعد روس کا براہ راست متاثر ہونا بھی یقینی ہوتا ہے۔ کچھ یہی حال چین اور ایران کا بھی ہے۔ امریکا اور بھارت کی مثال بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی ہے۔ یہ ملک ہزاروں میل دور سے محض افغانستان میں لگی آگ تاپنے کے شوق اور تزویراتی گہرائی تلاش کرنے بیٹھے ہیں اور اسی سے سارا فساد پھیل رہا ہے۔ خود ایک سربرآوردہ افغان لیڈر گل بدین حکمت یار نے کہا تھا کہ امریکا کی پاکستان سے ناراضی کی وجہ افغانستان نہیں بلکہ ایک نیا علاقائی بلاک ہے۔ ایسے میں بہتر ہے کہ پاکستان اب امریکی امداد کو بھول کر اپنی توجہ خطے میں ایک نئے بلاک کی تیاری پر رکھے جس کا واضح اعلان جنرل زبیر محمود حیات نے بھی کیا ہے۔ اس بلاک سے وابستگی کا مطلب امریکا سے مخاصمت اور دشمنی نہیں بلکہ اپنے مفادات کو ترجیح اوّل بنانا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکا اور پاکستان کے مفادات دو متضاد سمتوں کی طرف رواں ہیں ایسے میں امریکا کے قدم بقدم چلنا پاکستان کے بس میں نہیں۔ امریکا نے افغانستان، بھارت کو پٹے پر دے کر پاکستان کو خوف زدہ اور محتاط کر دیا ہے۔ ایسے میں علاقائی ممالک اپنے مسائل کو اپنے علاقائی اور مقامی مزاج کے مطابق زیادہ بہتر انداز سے سمجھتے ہیں اور ان کا بہتر حل علاقائی مفاد میں تلاش کر سکتے ہیں۔ ہزاروں میل دور تھنک ٹیکنس اور اسلحہ ساز کمپنیوں کی رپورٹوں پر پالیسیاں بنانے والے زمینی حقائق سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی پالیسیاں خلا میں رہتی ہیں اور زمین پر پٹ جاتی ہیں۔ افغانستان میں امریکا اسی المیہ سے دوچار ہے مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی پر اصرار کی روش اپنائے ہوئے ہے۔