فرشتے یہاں پہرہ دیتے ہیں 

410

بابا الف کے قلم سے

بڑے گھمنڈ اور تکبر سے کہہ دیا جاتا ہے کہ دینی مدارس تو ہماری خیرات اور زکوٰۃ پر پل رہے ہیں۔ ان چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں، خائنوں اور بدمعاشوں کو جنہیں سیاسی اور فوجی حکومت یا حکومتی اہل کار کہا جاتا ہے، کبھی ہم نے ان سے کہا کہ تم ہمارے دیے ہوئے ٹیکس سے، جو تم ظلم سے وصول کرتے ہو یہ عیاشی بھری زندگی گزار رہے ہو۔ تمہارے سوروں جیسے وجود ہمارے دیے ہوئے ٹیکس پر پل رہے ہیں۔ نہیں، ہم میں اتنی جرات ہی نہیں۔ بلکہ معاشرے کے ان ناسوروں سے تعلقات پیدا کرنے، روابط بڑھانے کے ہم شائق رہتے ہیں۔ ان کی چاکری کرنے اور جوتے پالش کرنے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ لیکن دینی مدارس کے باب میں خوب زبانیں چلتی ہیں۔ یاد رکھو دینی مدارس کو تمہارے چندوں اور معاونت کی ضرورت نہیں۔ تم چندے نہیں دوگے دینی مدارس جب بھی چلتے رہیں گے۔ یہ دینی مدارس امیروں کے نہیں غریبوں کے چندوں سے چلتے ہیں۔ جو دینی مدرسے اور مسجد کے چندے کے ڈبے میں دس بیس روپے ڈال کر اللہ سبحانہ وتعالی کے ممنون اور احسان مند ہوتے ہیں کہ اس نے اپنے گھر کی خدمت کے لیے انہیں منتخب کیا۔
آج نوجوانوں کے سامنے امکانات کی وسیع دنیا پھیلی ہوئی ہے۔ امیروں ہی کے نہیں غریبوں کے بچوں کے سامنے بھی لاتعداد پروگرام، کورس، ڈپلومے اور اسکالر شپس ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ آسودہ حال گھرانوں کے بچے بھی دینی مدارس کارخ کر رہے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں سے کینٹ ریلوے اسٹیشن پر اترتے اور اندرون شہر سے آتے غریبوں کے بچے بھی۔ یہ سب بچے ایسے یقین اور اعتماد کے ساتھ مدارس کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں جیسے اپنی کامیابی کا سرٹیفیکٹ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے لکھوا کر لائے ہیں۔ دنیا کے ہر لالچ اور شاندار مستقبل کی خبروں سے بے نیاز ایسے خوش اور مطمئن جیسے دولت کونین ان کے قدموں میں پڑی ہو۔ یہ غریب اور مفلوک الحال طالب علم ہی مدارس کا اصل اثاثہ ہیں۔ ایک طالب علم کو ہم جانتے ہیں ہفتے کے سو روپے گھر سے لاتا ہے۔ لیکن نہ کسی احساس محرومی کا شکار، نہ والدین سے شکوہ کہ انہوں نے میرے لیے کچھ نہیں کیا اور نہ دولت کے کسی تماشے سے مرعوب۔ جب کہ ہم نے امیروں کے بچوں کو دیکھا ہے کاروں میں گھومتے ہوئے، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہوئے، دنیا کی ہر آسودگی سے مستفید لیکن والدین کا ذکر ایک حقارت سے ’’ہمارے والدین نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے۔‘‘ دینی مدارس کے طالب علم قوم کے وہ جوان ہیں جو اپنی ذات سے ماورا ہیں۔ جو غیر معمولی محنتی اور ذہین ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس قومی دھارے میں شامل نہیں۔ کون سا قومی دھارا؟ جو سرمایہ دارانہ سودی نظام کو فروغ دے رہا ہے۔ جس کی جان اس نظام میں ہے جسے اصلاح کی نہیں تدفین کی ضرورت ہے۔ آج قومی دھارا کرکٹ کے مقابلوں میں فتح پر خوشیاں منانے، آزادی کے دنوں پر جھنڈیاں لگانے اور اگلے دن ان جھنڈیوں کو قدموں تلے روندنے، سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں والے رنگوں کے کپڑے پہن کر مٹک مٹک کر اپنی پاکستانیت پر اصرار کرنے، حب الوطنی کے سرٹیفکٹ بانٹنے، دینی مدارس اور مولوی کو گالی دینے کا نام ہے۔ آج قومی دھارا چند مخصوص دنوں میں ثقافتی شوز میں طوائفوں کے ناچ گانے، جلسے جلوسوں میں شرکت کرنے، رشوت خوری اور چوری چکاری میں لتھڑے ہوئے سیاست دانوں کو قومی رہنما کہنے، نسلی، لسانی اور پارٹی عصبیت کے نام پر ووٹ دینے، اپنے لوگوں کو سرکاری اداروں میں کھپانے، سرکاری اداروں کی نج کاری کرنے، غیرملکی سرمایہ کاری کے نام پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو نوازنے اور اپنے لوگوں کو کچلنے اور امریکا اور مغرب سے وفاداریاں نبھانے، ان کے رنگ میں رنگ جانے اور ان کے مفادات کے لیے مسلمانوں کا خون بہانے کا نام ہے۔ دینی مدارس لعنت بھیجتے ہیں ایسے قومی دھارے پر۔ کوئی بھی جذبہ ہو اظہار کے اسالیب ماحول سے بنتے ہیں۔ قرآن وسنت کی صداؤں سے گونجتا دینی مدارس کا ماحول ایسے قومی دھارے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتا جہاں بیش تر باتیں اللہ کے غضب کو آواز دینے والی ہیں۔ قومی عصبیت ہو یا کسی بھی قسم کی عصبیت دینی مدارس تمام عصبیتوں پر اسلام کو اور دین کو اولیت دیتے ہیں۔ انہیں خود کو سچا پاکستانی ظاہر کرنے، حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کسی ڈراما باز اور تماشا گر سے لینے کی ضرورت نہیں۔
ملک میں ہر تعلیمی ادارے میں لسانی بنیادوں پر طلبہ کی تنظیمیں قائم ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کے طالب علموں کے درمیان بھی خاموشی سے نہیں بلند آہنگی سے نفرتوں کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ دینی مدارس کا ماحول ایسی طلبہ تنظیموں کے وجود سے پاک ہے۔ یہاں پختون، پنجابی، سندھی، سرائیکی، بلوچی، گلگتی، مہاجر اور ملک کے چپے چپے سے آئے ہوئے طالب علم ’’انما المسلمون اخوۃ‘‘ ’’سب مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘ کی عملی تفسیر ہیں۔
اساتذہ اور طالب علموں کے درمیان محبت، خلوص اور ایک دوسرے پر جان چھڑکنے کا جو جذبہ دینی مدارس میں پایا جاتا ہے جدید عصری علوم کے تعلیمی ادارے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ فجر سے عصر تک اساتذہ اور طالب علم پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہوتے ہیں اور پھر عصر سے مغرب یہی اساتذہ اور طالب علم ایک دوسرے کے ساتھ میدان میں کرکٹ اور فٹبال کھیل رہے ہوتے ہیں۔ دینی مدارس میں اساتذہ اور طالب علم ایک مقصد، آدرش اور نصب العین سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں شیخ الحدیث بھی طالب علموں کے ساتھ بیٹھ کر وہی کچھ کھاتے ہیں جو ایک طالب علم کھاتا ہے۔ یہ مساوات صرف کھانا کھانے تک محدود نہیں ہر شعبے میں ہے۔ یہاں طالب علم، اساتذہ اور انتظامیہ کسی کو کسی سے اپنی محنت کا صلہ درکار نہیں۔ یہاں اساتذہ کو یہ فکر نہیں کہ ریٹائر منٹ کے بعد کیا ہوگا۔ پینشن ملے گی یا نہیں۔ ساری زندگی کی محنت کی قیمت انہیں اپنے اداروں سے درکار ہے اور نہ معاشرے اور حکومت سے۔ یہاں حسن کارکر دگی کے تمغے نہیں بانٹے جاتے اور نہ ایسے تمغے کسی کے حاشیہ خیال میں بھی ہیں۔ یہاں خدمات انجام دینے والے ملازمین کی بھی وہ توقیر ہے کہ انتظامیہ، اساتذہ، طالب علم کوئی ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کرسکتا۔ بد تمیزی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ خدمت گار بھی ایسی جان توڑ محنت کرتے ہیں کہ کیا بیان کیا جائے۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کوئی ایک ادارہ بتا دیجیے جہاں تمام لوگ ایسی بے لوثی سے خدمت انجام دے رہے ہوں۔ دینی مدارس میں کسی کو دنیا اور اہل دنیا سے صلہ درکار نہیں۔ ان کا صلہ تو ان کے ربّ کے پاس ہے۔
دینی مدارس معاشرے سے کٹے ہوئے جزیرے نہیں ہیں۔ وہ بھی معاشرے کے ساتھ روتے اور ہنستے ہیں۔ مہنگائی انہیں بھی متاثر کرتی ہے۔ دکھ، درد، دنیا کے مصائب اور مشکلات ان کے گھروں کی دیواروں پر بھی بال کھولے سورہے ہیں۔ ملک وقوم کو کوئی صدمہ پہنچتا ہے تو وہاں بھی سب کے چہرے اترے ہوئے ہوتے ہیں۔ حالات ان کی زندگی کو بھی اجیرن بنادیتے ہیں۔ ملک وقوم کی ابتر حالت پر غصہ ان کے اندر بھی پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ان کی دینی تعلیم، ان کے اندر کا شائستہ اور مہذب انسان انہیں احتجاج کے وہ قرینے اختیار نہیں کرنے دیتا جو اس سماج اور اہل دنیا کا طریقہ ہے۔ دینی مدارس ایک تہذیب کا نام ہے۔
یہ ہماری زندگی کے آخرآخر اور خوشگوار ترین روز وشب ہیں۔ ہماری خوش بختی کہ یہ دن ہم ایک دینی مدرسے جامعۃ السعید میں بطور معلم بتا رہے ہیں۔ اکابرین کی بات تو کیا کیجیے ساتھی اساتذہ میں بھی ہم نے ایسی بلند پایہ شخصیات دیکھی ہیں کہ ہیرے موتی لعل وگوہر ان کے سامنے سب کنکر پتھر ہیں۔ دینی مدارس سے فکری اختلاف کیا جاسکتا ہے ضرور کیجیے لیکن ان سے بغض اور کینے کو دل میں جگہ مت دیجیے۔ دینی مدارس ایک سحر اور جذب کا نام ہے یقیناًاللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فرشتے یہاں پہرہ دیتے ہیں۔