سرسید اور ان کا تصورِ صحابہؓ

562

شاہنواز فاروقی

اسلامی تاریخ میں رسول اکرمؐ کے بعد صحابہ کرام اہل ایمان کے لیے سب سے زیادہ محترم اور مکرم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اکرمؐ کا زمانہ پایا۔ انہوں نے رسول اکرمؐ سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ انہوں نے آپؐ کی پیروی کو درجہ کمال تک پہنچایا۔ اس لیے حضور اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرے اصحابہ آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے فلاح پاؤ گے۔ لیکن صحابہ کرامؓ کے بھی درجے اور مراتب ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ صدیق اکبر ہیں۔ آپ کا جو درجہ ہے وہ کسی اور کا نہیں۔ سیدنا عمرؓ اور صدیق اکبر کو ایک وحدت سمجھا جائے تو ان دونوں کا مرتبہ باقی تمام صحابہ سے بلند ہے۔ ہماری روایت میں خلفائے راشدین کی اصطلاح مستعمل ہے اور اس اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ خلفائے راشدین کی طرح کوئی نہیں۔ عشرہ مبشرہ اور بدری صحابہ کا مرتبہ باقی اصحاب رسولؐ سے بلند تر ہے۔ سرسید کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جس طرح قرآن کے تمام معجزات کے منکر ہیں۔ احادیث کے منکر ہیں اسی طرح انہوں نے صحابہ کرامؓ پر بھی رکیک حملے کیے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں سرسید کے ’’کارنامے‘‘ کیا ہیں؟ لکھتے ہیں۔
’’خلافت کی نسبت بحیثیت انتظام ملکی کیا لکھا جائے اور کون لکھ سکتا ہے؟ میں تو ان صفات کو جو ذاتِ نبوی میں جمع تھیں دو حصوں پر تقسیم کرتا ہوں، ایک سلطنت اور ایک قدوسیت۔ اوّل کی خلافت حضرت عمرؓ کو ملی دوسری کی خلافت حضرت علیؓ و ائمہ اہل بیت کو۔ مگر یہ کہہ دینا تو آسان ہے مگر کس کو جرأت ہے کہ اس کو لکھے، حضرت عثمانؓ نے سب چیزوں کو غارت کردیا۔ حضرت ابوبکرؓ تو صرف برائے نام بزرگ آدمی ہے‘‘۔
(خطوطِ سرسید۔ صفحہ 183۔ بحوالہ افکارِ سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 235)
’’ترقی علوم خود اس کا فیصلہ کرنے والی تھی اور قرآن مجید کا مقصد اس سے زیادہ اعلیٰ و افضل تھا اور ہرگز مصلحت نہ تھی کہ خدا ایسے باریک مسئلے کو بدوؤں اونٹوں کے چرانے والوں کے سامنے یا ان عالموں کے سامنے جن کے علم و تجربے نے کافی ترقی نہیں کی تھی بیان کرکے لوگوں کو پریشانی میں ڈالتا اور تعلیم و اخلاق کو، جو اصلی مقصد مذہب کا تھا، ایسے دقیق مسائل میں ڈال کر برباد کردیتا۔ (آخری مضامین۔ صفحہ 48۔ بحوالہ افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 43)
سیدنا عمرؓ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو دیکھا تو فرمایا ’’اے رسول اکرمؐ کے بعد سب سے افضل انسان‘‘۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا یہ آپ کیا فرمارہے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ میں نے خود رسول اکرمؐ کو آپ کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔ لیکن یہ قصہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی عظمت کی واحد سند نہیں۔ رسول اکرمؐ ایک رات کو سیدہ عائشہؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ سیدہ عائشہؓ نے ستاروں سے بھرے آسمان کی طرف دیکھا اور رسول اللہ سے سوال کیا کہ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کی نیکیاں آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہوں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: کیوں نہیں عمرؓ ایسے ہی شخص ہیں۔ سیدہ عائشہؓ نے سوال کیا اور میرے والد یعنی ابوبکرؓ؟ رسول اکرمؐ نے کہا کہ ابوبکرؓ کی ایک نیکی عمرؓ کی ساری نیکیوں سے بڑھ کر ہے۔ ایک حدیث شریف میں رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ جب ابوبکرؓ اور عمرؓ کسی بات پہ متفق ہوجاتے ہیں تو میں ان کی رائے کے خلاف رائے اختیار نہیں کرتا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے احسان کا بدلہ میں نے چکا نہ دیا ہو۔ مگر ابوبکرؓ کے احسان کا بدلہ اللہ ہی چکائے گا۔ مستند روایات سے ثابت ہے کہ حضور اکرمؐ جب وصال سے قبل علیل ہوئے تو ابوبکرؓ نے آپؐ کی موجودگی میں 20 سے زیادہ نمازوں کی امامت فرمائی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے جس شخصیت کو اپنی موجودگی میں امامت صغریٰ کے لیے منتخب کیا وہی امامت کبریٰ یعنی خلافت کی بھی مستحق تھی۔ اسلامی تاریخ میں صدیق تو بہت ہوئے ہیں اور مزید ہوں گے مگر صدیق اکبرؓ صرف ابوبکرؓ ہیں اور یہ خطاب رسول اکرمؐ کا دیا ہوا ہے۔ ہماری روایت میں صدیق کا مقام شہید سے بھی بلند تر ہے اور ابوبکرؓ صدیق اکبر ہیں۔ اس مقام سے بلند صرف نبی کا مقام ہے۔ رسول اکرمؐ نے سیدنا عمرؓ کے بارے میں فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ مگر خود سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابوبکرؓ اگر وہ تین دن مجھے دے دیں جو انہوں نے مکے سے مدینے ہجرت کے دوران رسول اکرمؐ کے ساتھ غار میں بسر کیے تو میں ابوبکرؓ کو اپنی پوری زندگی دے سکتا ہوں۔ رسول اکرمؐ سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپؐ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے تو رسول اکرمؐ نے فرمایا ابوبکرؓ سے۔ سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی بار رسول اکرمؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں وہاں گیا اور ابوبکرؓ و عمرؓ میرے ساتھ تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ کی یہی عظمت تھی جس کی وجہ سے رسول اکرمؐ کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکرؓ پہلے خلیفہ راشد قرار پائے اور اس منصب پر صحابہ کرامؓ کے اجماع نے مہر تصدیق ثبت کی۔ ظاہر ہے کہ یہ سیدنا ابوبکرؓ کی عظمت کی ’’چند جھلکیاں‘‘ ہیں۔ ان جھلکیوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد آپ ایک بار پھر ابوبکرؓ کے بارے میں سرسید کی ’’رائے‘‘ پڑھیے۔
’’حضرت ابوبکرؓ تو صرف برائے نام بزرگ آدمی ہے‘‘۔
اس فقرے کو غور سے پڑھیے اس فقرے کی معنویت میں صدیق اکبرؓ کی توہین اور تضحیک ہے۔ اس فقرے کی مجموعی ساخت میں صدیق اکبرؓ کی توہین و تضحیک ہے۔ اس فقرے کے الفاظ میں صدیق اکبرؓ کی توہین و تضحیک ہے۔ مگر سرسید قرآن کے معجزات کا انکار کرکے خدا اور خود قرآن پاک کی توہین کریں تو کوئی خاص بات نہیں۔ وہ صحیح احادیث کے مجموعوں کو بھی ناقابل اعتبار گردانیں، توہین احادیث کریں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ تفسیر کی پوری روایت کو مسترد کردیں تو کوئی ناراض نہیں ہوتا لیکن کوئی سرسید کی ان بغاوتوں پر ناراض ہو تو وہ ’’غصے والا‘‘ ہے، ’’چڑچڑا‘‘ ہے، یہ وہی ذہنیت ہے جو مغرب کا امتیازی وصف ہے۔ مغرب لاکھوں کروڑوں لوگوں کو مار کر اس کا ذکر بھی نہیں کرتا مگر کوئی مسلمان اپنے دفاع میں ہتھیار اُٹھالے اور دوچار کفار کو تہہ تیغ کردے تو وہ ’’سفاک‘‘ ہے، ’’دہشت گرد‘‘ ہے، ’’درندہ‘‘ ہے۔ ہمیں حیرت ہے ان لوگوں پر جو توہین قرآن، توہین احادیث، توہین صحابہ، توہین علم تفسیر، توہین فقہ اور توہین مسلم تہذیب کو محسوس نہیں کرتے اور ان کے اندر اس حوالے سے کوئی ردِ عمل پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس وہ ان لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں جو اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے دفاع کے سوا کچھ نہیں کررہے ہوتے۔ خیر یہ ایک الگ ہی قصہ ہے، یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص صدیق اکبرؓ کی توہین اور تضحیک کرسکتا ہے اس کے نزدیک کسی اور صحابی رسولؐ کی کیا اہمیت ہوگی؟۔ آپ کہیں گے سرسید نے سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی توہین و تضحیک کی ہے مگر انہوں نے حضرت عمرؓ کی توصیف کی ہے۔ مگر اس کی وجہ انہوں نے خود بیان کردی ہے اور وہ یہ کہ سیدنا عمرؓ کو صفت نبوت کا ایک حصہ یعنی ’’سلطنت‘‘ مل گئی۔ بدقسمتی سے سرسید کی پوری شخصیت ’’طاقت مرکز‘‘ یا Power Centric ہے۔ وہ انگریزوں کے بھی اسی لیے ’’عاشق‘‘ تھے کہ ان کے پاس سلطنت آگئی تھی۔
سرسید نے صحابہ کرام کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ بدّو تھے، اونٹ چرانے والے تھے اور وہ قرآن کے اعلیٰ و افضل مقصد کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے اور سرسید کے بقول خدا کا منشا بھی یہی تھا کہ وہ تعلیم و اخلاق جیسے دقیق مسائل کا بوجھ ایسے لوگوں پر ڈال کر مذہب کے مقصد کو برباد کرے۔ اللہ اکبر۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے میرا زمانہ بہترین ہے اور اس کے بعد میرے بعد کا زمانہ اور اس کے بعد اس کے بعد کا زمانہ۔ مگر حضور اکرمؐ جن زمانوں کو بہترین قرار دے رہے ہیں۔ سرسید کو ان زمانوں کے لوگ صرف ’’بدّو‘‘ اور ’’اونٹ چرانے والے‘‘ نظر آرہے ہیں۔ سرسید نے اونٹ چرانے کا ذکر اتنی حقارت سے کیا ہے جیسے جانور چرانا کوئی خلاف مذہب، خلاف علم یا خلاف تہذیب کام ہو۔ حالاں کہ انبیا و مرسلین میں سے کئی نے بھیڑ بکریاں چرائی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانہ زراعت اور گلہ بانی کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں اکثر لوگ انہی پیشوں سے وابستہ تھے۔ سرسید انگریزوں کی ریل اور بحری جہازوں سے بہت مرعوب تھے۔ صحابہ کرام کے زمانے میں بھی ریل اور بحری جہاز ہوتے اور وہ ریل اور جہاز چلانے والے ہوتے تو سرسید ان سے بہت متاثر ہوتے اور ان کے پیشوں کا ذکر تکریم کے ساتھ کرتے۔ صحابہ کرام کے سلسلے میں سرسید کا یہ خیال توہین کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے کہ صحابہ قرآن کے فہم کی استعداد نہیں رکھتے تھے، اس لیے گویا خدا نے قرآن فہمی کا بوجھ صحابہ پر ڈالنا پسند نہ کیا۔ حالاں کہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کی کتابت کرنے والے صحابہ کرام تھے۔ قرآن کو حفظ کرنے والے صحابہ کرام تھے۔ قرآن کو تابعین تک منتقل کرنے والے صحابہ کرام تھے۔ قرآن مجید کا درس دینے والے صحابہ کرام تھے۔ مذاہب عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ تمام آسمانی کتب کے محافظ اور شارحین انبیا و مرسلین کے اصحاب ہی تھے۔ اس تاریخ میں رسول اکرمؐ کو جو اصحاب مہیا ہوئے پوری انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اقبال نے کہا ہے؂؂
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
سرسید کہہ رہے ہیں جو ایمان کے بلند ترین مقام پر فائز تھے وہ تو قرآن کو نہیں سمجھ سکتے تھے اس لیے کہ وہ بدّو تھے۔ اونٹ چرانے والے تھے اور جو زمانے ترک قرآن کے زمانے تھے ان میں قرآن سب کو سمجھ میں آرہا تھا بالخصوص سرسید کو۔ غور کیا جائے تو یہاں سرسید نے تاریخ کو اُلٹ دیا ہے۔ غور کیا جائے تو سرسید کہے بغیر رسول اکرمؐ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؐ نے معاذ اللہ صاحب قرآن ہونے کے باوجود اپنے اصحاب کو قرآن کی تعلیم نہ دی۔ حالاں کہ سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ نے قرآن پاک کی ایک سورۃ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ صورت ہم نے رسول اکرمؐ سے آٹھ سال میں سیکھی۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے سیدنا علیؓ کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر قیام کیا۔ ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق سیدنا علیؓ نے عشا کی نماز کے بعد عربی کے حرف ’’ب‘‘ کے نقطے پر کلام کا آغاز کیا۔ ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق فجر کی اذان ہوگئی اور ’’ب‘‘ کے نقطے پر سیدنا علیؓ کی گفتگو جاری تھی۔ حضور اکرمؐ کی مشہور حدیث ہے۔ آپؐ نے فرمایا میں شہر علم ہوں، ابوبکرؓ اس کی چھت ہیں۔
عمرؓ اور عثمانؓ اس کی دیواریں ہیں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ مگر سرسید کو شہر علم میں موجود صرف بدّو اور اونٹ چرانے والے نظر آتے ہیں۔
آپ ملاحظہ کرچکے کہ سرسید کے نزدیک صحابہ کرام تو بدّو اور اونٹ چرانے والے ہیں اور سرسید کی نظر میں صدیق اکبرؓ ’’برائے نام بزرگ آدمی ہے‘‘ ان بیانات سے سرسید کا علم، فہم اور تہذیب سبھی کچھ جھلک رہی ہے لیکن سرسید صدیق اکبر اور صحابہ کرام کے سلسلے میں ’’بدتہذیب‘‘ تھے تو کیا ہوا انگریزوں، ان کی حکومت اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سلسلے میں سرسید ’’تہذیب‘‘ اور شائستگی کے ساتویں آسمان پر تھے۔ مثلاً انہوں نے لارڈ میکالے کے بارے میں فرمایا۔
’’آخر ایک نیک اور سچا مدّبر یعنی لارڈ میکالے ہندوستان میں پیدا ہوا‘‘۔ (مقالات سرسید (15) صفحہ 54-55۔ بحوالہ افکارِ سرسید از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 197)۔
مسلمانوں کیا پورے برصغیر پر مسلط ظالم و جابر برٹش حکومت کے بارے میں سرسید نے لکھا۔
’’جب سے ایک روشن ضمیر و تربیت یافتہ گورنمنٹ انگلشیہ کے ہاتھ میں ہماری قسمتیں سپرد ہوئی ہیں اس وقت سے ہماری تعلیم نے مختلف طرح پلٹے کھائے ہیں‘‘۔(افکار سرسید، ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 196)۔
ہندوستان کو کھا جانے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں سرسید نے فرمایا۔
’’آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت جب سے ہندوستان میں ہوئی‘‘ (افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 196)
ان اقتباسات کو دیکھا جائے تو سرسید کے نزدیک مسلمانوں کے علم اور تعلیم کی دشمنی لارڈ میکالے ’’نیک اور سچا‘‘ مدبر ہے۔ برٹش حکومت سرسید کی نظر میں روشن ضمیر اور تربیت یافتہ ہے۔ سرسید کے خیال میں ایسٹ انڈیا کمپنی ’’آنریبل‘‘ یعنی قابل احترام ہے۔ ان بیانات کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ سرسید کے دل میں صدیق اکبر اور صحابہ کرامؓ سے زیادہ عزت اور محبت تو لارڈ میکالے، برٹش گورنمنٹ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی تھی۔