جُرم کی دَلدل میں دھنسے نوجوانوں کو کار آمد شہری بنانے کی کوششیں

201

ویمن اسلامک لائرز فورم کے تحت جیل میں کمپیوٹر کورسز کے سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے کی تقریب

غزالہ عزیز
نوجوان لڑکوں سے ہال بھرا ہوا تھا … وہ ایک ترتیب کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ ان کی آوازوں سے ہال گونج رہا تھا۔ داخلی دروازے سے ذرا ہٹ کر پولیس افسران کھڑے تھے۔ آپس میں خوش گپیاں لگانے میں مصروف مگر منتظر تھے کیونکہ سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب ہونے والی تھی۔ مگر آپ کیوں حیران ہیں کہ بھلا جیل کے اندر کون سے سرٹیفکیٹ اور کیسی تعلیم؟؟؟
جی ہاں یہ پروگرام ہے ’ویمن اسلامک لائرزفورم‘ کا جو گزشتہ کئی برس سے بچوں کی جیل میںمختلف تعلیمی سرگرمیاں منعقد کرتی رہتی ہے، جس میں کمپیوٹر کورسز، قرآن کی تعلیم اور انگریزی سیکھنے کی کلاسز کے علاوہ مختلف اصلاحی ورکشاپس اور جسمانی و ذہنی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔ نوجوان ملزمان جو بغیر کسی مقدمے اور فیصلے کے کئی کئی مہینے اور برس جیل میں گزار چکے ہوتے ہیں، اور ان کی قید کا یہ سفر تاحال جاری ہے، کی ذہنی اصلاح کے لیے ویمن اسلامک لائرز فورم کے تحت ماہرین کے ذریعے کاؤنسلنگ کے پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔
ہم ویمن اسلامک لائرز فورم کی چیئر پرسن طلعت یاسمین اور ان کی ٹیم کے ساتھ کراچی کی مرکزی جیل کے دروازے پر پہنچے تو انتظامیہ نے شناخت کے بعد اندر جانے دیا ۔ لیکن ٹھہریے یہ کوئی آسان نہیں تھا ۔ مہینہ بھر پہلے ہی وِل فورم والوں نے ہمارے شناختی کارڈ کے ساتھ جیل کی انتظا.میہ کو درخواست بھیجی ہوئی تھی، گاڑی مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئی، جیل کی حدود کے اندر انتظامیہ کے گھروں کا سلسلہ تھا۔ جیل کے اندر گاڑی داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ بہت بڑے سے دروازے کا ایک چھوٹا دروازہ کھولا گیا جس کےبعد ہم لوگ اصل جیل کے اندرداخل ہوئے ۔
شناختی کارڈ وصول کر کے کلائیوں پر جیل کی مہر لگائی گئی۔ پتا چلا کہ یہ مہرداخلے کے وقت لگائی جاتی ہے اور واپسی پر اسی کو دیکھنے اور شناخت کے عمل سے گزار کر باہر نکلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
ہمیں تو جیل کے اونچے دروازے سے داخل ہوتے ہی قیدی ہونے کا احساس ہونے لگا تھا لیکن یہ ہماری منزل نہیں تھی۔ کئی راہداریوں اور دروازوں سے گزر کر اب ہم بچہ جیل جسے جووینائیل جیل کہا جاتا ہے میں داخل ہوئے۔
جس ہال میں تقریب کا انعقاد ہونا تھا، اس کی راہداری میں چلتے ہوئے دیوار میں کھڑکیوں پر لگی سلاخیں دیکھ کر پھر وہی قیدیوں والا احساس جاگا لیکن ہال کے اندر داخل ہوتے ہی منظر تبدیل ہو گیا ۔ نوجوان لڑکے ترتیب سے لگی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ ہلکی پھلکی گپ شپ کر رہے تھے۔ چہرے مختلف تاثرات دے رہے تھے۔ کوئی مغموم تھا، کوئی چپ اور کوئی قدرے مطمئن۔ کسی کے چہرے پر بے چینی تھی جو بتا رہی تھی کہ اسے یہاں آئے کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے۔ سامنے لگی کرسیوں پر ہمیں بٹھا دیا گیا۔ ہمارے ساتھ میڈیا کے کچھ نمائندے اور جامعات کے طالب علم بھی تھے ۔
پروگرام کا آغاز 14 سالہ ’پیر محمد‘ کی خوبصورت تلاوت سے ہوا جس نے خوبصورت آواز و انداز کے ساتھ آیت الکرسی کی تلاوت کی۔ اس کے بعد محمد عمر فاروق نے نعت پڑھی ۔ استقبالی کلمات کے بعد چند طلبہ کا خصوصی تعارف پیش کیا گیا۔ ایک طالب علم عباد نے 2 سال میں 4 کمپیوٹر کورسز مکمل کیے تھے۔ ساتھ ہی اپنی تعلیم بھی جاری رکھی تھی۔ سمیع بھی انتہائی ذہین اور سلجھے ہوئے طالب علم ہیں، انہوں نے انٹر سائنس کا امتحان جیل میں پاس کیا اور ساتھ ساتھ کمپیوٹر کورسز بھی کیے۔ ان کی رہائی میں چند ماہ باقی تھے۔ ان کے چہرے پر ایک سکون اور اطمینان کی کیفیت اس بات کا اظہار کر رہی تھی ۔
اب سرٹیفکیٹس کی تقسیم کا مرحلہ تھا۔ امتحان پاس کرنے والے قیدی طالب علم انتہائی خوش تھے۔ یہ سرٹیفکیٹس ان کے لیے باہر نکل کر کار آمد ہوں گے کیونکہ اس پر کہیں نہیں لکھا کہ یہ کورس انہوں نے جیل میں مکمل کیے ہیں۔ پروگرام کے درمیان میں شرکا سے کچھ سوالات اسلامی معلومات سے متعلق بھی پوچھے جا رہے تھے۔ صحیح جوابات پر انہیں چاکلیٹ دی جا رہی تھیں۔ پُرجوش تالیوں اور دمکتے چہروں کے ساتھ ماحول کسی درس گاہ کی طرح کا محسوس ہو رہا تھا۔ سچ ہے یہ نوجوان ہمارے ہیں… غلطی کے باعث یہاں تک پہنچے ہیں۔ا نہیں جرم کی دلدل میں دھنسنے کے لیے چھوڑ نہیں دینا… انہیں ملک کا کار آمد اور امن پسند شہری بنانا ہے۔ اس بات کو وِل فورم نے سوچا اور پھر اپنی مخلص اور پُر عزم ٹیم کے ساتھ کر دکھایا… شاباش وِل فورم… یوںہی وطن کے بھٹکے ہوئے سپوتوں کو راستہ دکھاتے رہیے۔

قیدی لڑکوں سے بات چیت

تقریب کے دوران کچھ لڑکوں سے بات چیت کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کس جرم میں پکڑے گئے ہیں؟ تو ہر ایک کی ایک الگ کہانی تھی۔ طارق نے بتایا کہ اسے بھتہ وصول کرنے کے جرم میں پکڑا گیا ۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ بھتہ لیتے تھے؟ کہنے لگے میرے دوست دُکانداروں سے بھتہ وصول کرتے تھے۔ دُکانداروں نے شکایت کی تو دوستوں کے ساتھ پولیس نے مجھے بھی پکڑ لیا۔ سچ ہے بری صحبت بری جگہ ہی لے جاتی ہے۔ والدین کو بچوں کے دوستوں پر خاص نظر رکھنی چاہیے ۔
عبداللہ کو موبائل چھیننے کے جرم میں پکڑا گیا۔ یہاں بھی معاملہ بری صحبت ہی کا تھا۔ شیر محمد لیاری سے تعلق رکھتے تھے۔ وہاں کے نوجوانوں کو نشے کی عادتیں لے ڈوبی ہیں۔ پھر وہاں کا ماحول بھی جرم کی دلدل کی طرح کا بنا ہوا ہے۔ وِل فورم کی ٹیم کا کہنا تھا کہ کئی لڑکوں کو انہوں نے ضمانت پر رہا کرایا ہے۔ والدین کو اس سلسلے میں خاص طور پر محلہ تبدیل کرنے اور بچوں کو گلیوں اور محلوں میں جرائم پیشہ افراد سے بچانے کی ہدایت کی لیکن وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں… گھر چھوڑکر کہاں جائیں؟؟ بچے باہر نکلتے ہیں تو دوبارہ انہی کاموں اور مشاغل کو اختیار کر لیتے ہیں ۔
طاہر کا معاملہ بہت حیرت انگیز بلکہ مثال عبرت تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے اس کی بہنوں ہی نے گرفتار کرایا ہے۔ ہم نے کہا کہ بہنیں بھلا اپنے بھائیوں کو کیوں گرفتار کرائیں گی۔ وہ تو اپنے بھائیوں سے بے انتہا پیار کرتی ہیں۔ لیکن طاہر کا کہنا تھا کہ جہاں پیسے کی محبت غالب آ جاتی ہے وہاں ہر رشتہ کمزور ہو جاتا ہے ۔
طاہر کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ کہنے لگا کچھ عرصہ قبل اس کی ماں کا انتقال ہوا ہے۔ باپ توپہلے ہی نہیں تھا۔ بہنیں ماں کے پیسے اورگھر پرقبضہ چاہتی ہیں۔ پتا نہیں کہانی کتنی سچ ہے لیکن طاہر کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔ جتنے بچوں سے بھی بات ہوئی انہیں ابھی تک کوئی سزا نہیں ہوئی تھی، کوئی سال کوئی 2 سال سے جیل میں تھا لیکن کسی کا مقدمہ عدالت میں لگا ہی نہیں تھا تو کسی کا چل رہا تھا اور وہ ابھی پیشی پر پیشی بھگت رہا تھا۔
کاش ہمارا عدالتی نظام کچھ ایسا ہو جائے کہ مجرم بچ کر نہ جا پائے اور بے گناہ جرم بے گناہی کی سزا نہ بھگتے۔

ویمن اسلامک لائرز فورم کی اہم سرگرمیاں

جیل میں اصلاحی ورکشاپس:
٭ اندازِ فکر و عمل کی تربیت۔
٭ ماہانہ 2 روزہ ٹریننگ پروگرام بذریعہ: جسمانی سرگرمیاں، ملٹی میڈیا۔
٭ نوجوان ملزمان کی ذہنی اصلاح کے لیے ملک کے مختلف مشہور ماہرین کے ساتھ کام کرنا۔ (ورکشاپس کا انعقاد اور اخراجات مکمل طور پر وِل فورم کے لیگل ایڈ فنڈ سے ادا کیے جاتے ہیں۔)
٭ مستقبل کے منصوبوں میں جیل اسٹاف کے رویوں میں تبدیلی کے لیے کائونسلنگ کرنا۔
انکم سپورٹ پروگرام:
٭ وہ قیدی جنہیں ضمانت پر رہا یا بری کروایا جاتا ہے انہیں مالی امداد فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ عزت سے زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔ اس طرح اسٹریٹ کرائم اور معاشرتی بگاڑ کی روک تھام کی کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔
٭ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں میں کم عمر مرد و خواتین ملزمان اور ان کے خاندان شامل ہیں ۔
٭ ٹھیلہ، بائیک ، رکشہ ، سلائی مشین ، کمپیوٹر ، فرنچ فرائز مشین اور راشن وغیرہ کی شکل میں امداد دی جاتی ہے۔
ثالثی سیل کا قیام :
٭ فورم کے تحت ثالثی سیل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔
٭ کوئی بھی موکل جو فریقین مقدمہ کے درمیان ثالثی چاہتا ہو فورم کے آفس سے رابطہ کر سکتا ہے ۔
خواندگی پروگرام برائے کمپیوٹر:
٭ بچہ جیل میں خواندگی پروگرام برائے کمپیوٹر
٭ صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے: قرآن کی تعلیم ، کمپیوٹر لٹریسی ، انگریزی زبان کو بہتر بنانا ۔
٭ مقامی طور پرروزگار کے لیے ہنر مند بنانا اور اس قابل بنانا کہ وہ با عزت طور پر خود کما سکیں ۔
لیگل ایڈ:
٭ قانونی مشاورت کی فراہمی اور اصلاح کی کوششیں۔
٭ فریقین مقدمہ کو قانونی مدد کی فراہمی
٭ فریقین مقدمہ کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کیا جاتا ہے ۔
٭ نسبتاً معصوم قیدیوں پر توجہ دی جاتی ہے ۔ ملزمان کو فوری طورپر ضمانت پر رہا کروایا جاتا ہے ۔
٭ مستحق فریقین مقدمہ کے زر ضمانت/ مچلکے جمع کرائے جاتے ہیں ۔
٭ وکلا کیسز کی صورتحال اور مسائل پرباقاعدہ مشاورت کر کے کیس کا جلد ا جلد فیصلہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
٭ والدین کی دورانِ مقدمہ کائونسلنگ بھی کی جاتی ہے ۔
جیل سروے:
٭ بچہ جیل اور خواتین جیل کے با قاعدگی سے دورے کیے جاتے ہیں۔
٭ قیدی بچوں اور خواتین سے معلومات حاصل کر کے سروے فارم بھروائے جاتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ عادی مجرم نہیں ہیں ۔
٭ کیس چلانے کے لیے وکالت نامے پر دستخط کروائے جاتے ہیں ۔