پارلیمانی نظام جمہوریت ایوان زریں اور ایوان بالا کے ذریعے چلایا جاتا ہے اور اسے آئین کی حد کے تحت متوازن رکھا جاتا ہے، ایوان زریں میں سیاسی مزاج، ہلہ گلہ اور عوامی رکھ رکھاؤ کے حامل سیاسی کارکن براہ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہو کر آتے ہیں جب کہ ایوان بالا ٹیکنوکریٹس، ماہرین پر مشتمل ادارہ ہے۔
پاکستان میں ایک عرصہ ہوا، سینیٹ کے انتخاب میں پیسے کا جادو چل رہا ہے، جادو بھی ایسا کہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ 2002 میں جب پارلیمنٹ وجود میں آئی تو مسلم لیگ (ق) اس وقت کنگ پارٹی تھی، چودھری شجاعت حسین نے اس وقت ایس ایم ظفر، پروفیسر غفور احمد اور انور بھنڈر جیسے تجربہ کار زیرک اور سنجیدہ مزاج کے حامل پارلیمنٹیرین سیاسی کارکنوں کو ترجیح دی کہ ان افراد کی ایوان میں آمد سے واقعی یہ ایوان سنجیدہ معلوم ہوگا اور یہاں قومی ایشوز پر نہایت پر مغز بحث کے بعد فیصلے ہوں گے چودھری شجاعت حسین کی کوشش ایک حد تک ہی کامیاب ہوسکتی تھی کہ جنرل مشرف کی براہ راست مداخلت کے باعث محمد میاں سومرو سینیٹ کے چیئرمین بنائے گئے حالاں کہ اس منصب کے لیے پرانے سیاسی کارکن انور بھنڈر، چودھری شجاعت حسین کے امیدوار تھے چوں کہ اس وقت ملک میں سکہ جنرل مشرف کا چل رہا تھا سو چودھری شجاعت حسین کامیاب نہ ہوئے اور وسیم سجاد جیسے زیرک کارکن بھی سینیٹ میں تو پہنچے مگر چیئرمین کے منصب کے لیے منتخب نہ ہوسکے۔ 2002 میں ہونے والے سینیٹ انتخاب میں مسلم لیگ (ق) کو بہت سے ٹکٹ جنرل مشرف اور ان کے معتمد طارق عزیز کے دباؤ کے باعث دینا پڑے، شوکت عزیز اور برادرم محمد علی درانی بھی ان میں شامل تھے۔ اس وقت طلحہ محمود پہلی بار جے یو آئی کے ذریعے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ سینیٹ کی تشکیل پر اس وقت بھی بہت سے سوالات اٹھے تھے اور آج بھی یہی سوال ہر سیاسی جماعت کا پیچھا کر رہے ہیں سینیٹ کے انتخاب کا معاملہ بہت سادہ سا ہے صوبائی اسمبلی جس جماعت کی جو عددی قوت ہوتی ہے اس حساب سے وہ سینیٹ میں نمائندگی حاصل کر لیتی ہے لیکن یہ اصول تو کئی بار ٹوٹا، نظر انداز بھی ہوا، متحدہ کی نمائندگی صوبہ سندھ میں ہے لیکن وہ تو فاٹا سے بھی سینیٹر منتخب کرانے کا میدان سجا چکی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تو کوئی متحدہ ہی سے پوچھے، آج بھی اگر چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی نظر میں رکھی جائے اور ان جماعتوں کی جانب سے دیے گئے ٹکٹ سامنے رکھے جائیں تو ایک نہیں بیسیوں سوالات بلکہ سوالوں کے انبار لگ جائیں، مسلم لیگ (ق) کی پنجاب اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں لیکن انہوں نے کامل علی آغا کو ٹکٹ دیا ہے اب وہ ووٹ کہاں سے کیسے حاصل کریں گے؟ یہ کالا جادو ہی ہے جو انہیں ووٹ لے کر دے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی فہرست بھی بہت دلچسپ ہے۔ گزشتہ انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے سندھ، بلوچستان کے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد اور پنجاب سے ٹکٹ دیے اور انہیں سینیٹ میں پہنچایا، نہال ہاشمی انہی میں ایک تھے، دوسرے سلیم ضیاء ہیں، سندھ سے راحیلہ مگسی اور سردار یعقوب ناصر بلوچستان سے ہیں انہیں اسلام آباد سے ٹکٹ دیا گیا، تحریک انصاف کے امیدوار بھی بڑے نام ہیں، پارٹی کے لیے ان کی خدمات کیا ہیں؟ کارکنوں نے نام ہی پہلی بار سنے ہیں تو خدمات کیا ہوسکتی ہیں، پارٹی نہیں البتہ پارٹی کی قیادت کے لیے ضرور خدمات ہوں گی۔
صوبہ کے پی کے سے تحریک انصاف کی ایک نئی ٹیم اس بار سینیٹ میں پہنچ رہی ہے ان تمام امیدواروں کو کامیاب کرانا اب وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی ذمے داری ہے، تین سال پہلے بھی وہ اس امتحان سے گزر چکے ہیں جس طرح پل صراط سے گزر کر انہوں نے اپنے ایم پی ایز سے ووٹ لیے تھے یہ ان کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔ اس وقت متحدہ دھڑے بندیوں کے نئے دور سے گزر رہی ہے، جب لندن سے ہدایت ملتی تھی تو حالات کچھ اور تھے اس وقت تو اس کے ایم این ایز ووٹ کے لیے ڈالرز لیے پھرتے تھے، پیپلزپارٹی کے دور میں متحدہ تو پیپلزپارٹی میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگئی وہ تو مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی خان راستے میں حائل ہوئے اور یوں پیپلزپارٹی کے ایم این اے اخوند زادہ چٹان کو آصف علی زرداری نے ووٹ ہی دینے سے روک دیا، یہ سودا کب کیسے اور کتنے میں ہوا تھا متحدہ ہی بتاسکتی ہے کہ یہ بیل کیوں نہ منڈھے چڑھ سکی، ہمیں کچھ علم نہیں، آج بھی یہ بحران میں گھری ہوئی ہے اور وجہ کامران ٹیسوری ہیں؟
ڈاکٹر فاروق ستار اپنے ایک قابل اعتماد ساتھی کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ دینا چاہتے ہیں جب کہ عامر خان گروپ کو یہ منظور نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایم کیو ایم چار سینیٹر منتخب کراسکتی ہے، لیکن یہ اسی صورت ہوگا جب ایم کیو ایم کے تمام ارکان سندھ اسمبلی اپنی پارٹی کے نامزد امیدواروں کو پارٹی ہدایت کے مطابق ووٹ دیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سینیٹ کے ٹکٹ کے لیے اب شاید یہی معیار رہ گیا ہے کہ جو شخص پارٹی کی مالی ضروریات کا خیال رکھے گا اور اخراجات کا بوجھ بھی خوشی خوشی اٹھائے گا وہ جواب میں پارٹی سے بھی تو کچھ طلب کرے گا، اگر وہ ساری خدمت بے لوث بھی کر رہا ہو تو بھی پارٹی کی قیادت تو یہ محسوس کرے گی کہ جو شخص پارٹی کی ہر قسم کی مالی ضروریات کا خیال رکھ رہا ہے اسے کم از کم ایک نشست ہی جوابی طور پر پیش کردی جائے، یہ مثال تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کی صورت میں موجود ہے، جب نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا تو وہ چند دن کے بعد اپنی پارٹی کی صدارت سے الگ ہوگئے تھے، ان کی جگہ سردار یعقوب ناصر کو مسلم لیگ (ن) کا قائم مقام صدر بنایا گیا، پھر جب پارلیمنٹ نے انتخابی ایکٹ 2017 منظور کیا تو اس میں یہ گنجائش موجود تھی کہ جو شخص قومی اسمبلی کا رکن نہیں بن سکتا وہ بھی پارٹی عہدہ رکھ سکتا ہے، جب یہ ترمیم منظور ہوئی تو بہت زیادہ شور مچا کہ ایک نااہل شخص کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے لیکن معلوم نہیں تھا کہ تھوڑے ہی عرصے بعد تحریک انصاف کو اس شق کا سہارا لینا پڑ جائے گا۔ اب جہانگیر ترین بدستور پارٹی کے عہدیدار ہیں اور پارٹی کے چیئرمین کو اس پر اعتراض نہیں۔
کہا جاتا تھا کہ تحریک انصاف موروثی سیاست کی بہت زیادہ مخالف ہے، لیکن جہانگیر ترین کے معاملے میں پارٹی نے اپنا یہ اصول قربان کردیا ہے۔ عمران خان کا مقدمہ لڑنے والے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پارٹی چوں کہ موروثی سیاست کی حامی نہیں اس لیے یہ فیصلہ درست نہیں نعیم بخاری کی آواز نقار خانے کے شور شرابے میں نہیں سنی گئی الٹا یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں نعیم بخاری ہی کو باہر کا راستہ نہ دکھا دیا جائے، ایسا ہر پارٹی میں ہے یوں سمجھ لیں کہ اب اس دور میں کسی حسرت موہانی کی کسی پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں زر کو قاضی الحاجات یوں ہی تو نہیں کہہ دیا گیا تھا۔