اپنے موقف سے اختلاف کرنے والی حکومتوں کی تبدیلی امریکا کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ کبھی تبدیلی کی کوشش کامیابی سے دوچار ہوتی رہی اور کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران ان سخت جان ملکوں میں شامل ہے جہاں حکومت کی تبدیلی کی امریکی خواہش دہائیوں سے پوری نہیں ہو رہی۔ ترکی بھی اب اس خواہش کی تکمیل کے لیے قطعی غیر موافق ملک بنتا جا رہا ہے بالخصوص فوج کے ایک ٹولے کی طرف سے بغاوت کی کوشش کی ناکامی نے ترکی کو مزید سخت جان بنا دیا ہے۔ لاطینی امریکا میں ہوگو شاویز اور فیڈل کاسترو بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل رہے ہیں جو اس خواہش اور خواب کی بھینٹ چڑھنے سے بال بال بچتے رہے۔ لیبیا اور عراق کے حکمران اور نظام اس حوالے سے خاصے مضبوط دکھائی دیتے رہے مگر براہ راست مداخلت نے ان ملکوں کو بھی آخر کار ڈھیر کر دیا اور امریکا ان ملکوں میں اپنی پسند کا نظام اور افراد آگے لانے میں کامیاب ہوا۔
جب سے امریکا اور بھارت کی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ شروع ہوئی امریکا نے بھارت کو جنوبی ایشیا کی حد تک یہی کردار دینے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا مطلب ہی دونوں جنوبی ایشیا بلکہ اس کی حدود سے باہر بھارت کو پولیس مین کا کردار دینا ہے۔ چوں کہ بھارت کو گھر ہی میں دو اہم ملکوں یعنی چین اور پاکستان سے مخاصمت کا سامنا ہے اس لیے وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہو رہا اور یوں ایک کشیدگی اور سرد جنگ کا ماحول غالب آرہا ہے۔ بھارت اپنی متنازع حیثیت کے باجود علاقے کے ممالک میں اپنی لابیاں پیدا کر کے درحقیقت ان ملکوں میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ اس مہم جوئی کا تازہ شکار مالدیپ ہے۔
مالدیپ پانیوں میں گھرا جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا مسلمان اکثریتی ملک ہے۔ یہ سارک تنظیم کا ایک فعال رکن بھی ہے۔ مالدیپ میں ان دنوں اچانک سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ صدر یامین نے اچانک مالدیپ کے چیف جسٹس عبداللہ سعید کو برطرف کرکے نظر بند کر دیا۔ جس کے بعد امریکا، برطانیہ اور بھارت نے مالدیپ پر چیف جسٹس کی رہائی اور بحالی کے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ چیف جسٹس سابق صدر قیوم محمد نشید کے مقرر کردہ تھے جنہیں بھارت اور امریکا نواز سمجھا جاتا ہے اور 2013 کے انتخابات میں شکست کھا چکے ہیں۔ موجودہ صدر یامین علاقائی سیاست میں چین اور پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لیے چیف جسٹس کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے بعد صدر یامین نے اپنے خصوصی نمائندوں کو پاکستان، چین اور سعودی عرب کے دورے پر بھیجا ہے۔ امریکا اور بھارت چیف جسٹس سے کوئی مہم جوئی کروا کر مالدیپ میں طاقت اور حالات کا پانسا پلٹنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے صدر یامین نے انہیں برطرف کر دیا۔ اس سے پہلے سری لنکا میں مہندہ راجا پکاسا کے خلاف ایسے ہی حالات پیدا کرکے انہیں اقتدار سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔
بھارت سری لنکا کے بعد مالدیپ کی مسند اقتدار پر ’’رجیم چینج‘‘ کے نام پر ’’اپنا بندہ‘‘ بٹھانا چاہتا ہے۔ بھارت کی ہمسایہ ملکوں میں اپنے بندے اوپر لانے کی یہ مہم جوئی جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں میں کسی نہ کسی انداز سے جاری ہیں۔ بنگلا دیش میں حسینہ واجد کی صورت میں بھی یہ کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے۔ ان کی قریب ترین سیاسی حریف خالدہ ضیاء کو نشان عبرت بنا ڈالا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ مداخلت مختلف انداز میں جاری ہے۔ بھارت کی اس مہم جوئی کے ڈانڈے امریکا کے عالمی اور علاقائی عزائم سے جا ملتے ہیں۔ بھارت اس خطے میں امریکا کی سرپرستی میں چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت اگر خود کو ہر میدان میں مقابلے کا اہل نہ بھی سمجھے امریکا اس کے غبارے میں ہوا بھر رہا ہے۔
امریکا اور بھارت ایسے جزیروں کی ایک زنجیر بنا رہے ہیں جنہیں وہ اپنے اڈوں کے طور پر استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ چین کے تجارتی قافلوں اور آبدوزوں پر نظر رکھنے کے لیے بھی استعمال کرے۔ اسی لیے امریکا اور بھارت جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں میں اپنے پٹھو حکمران مسلط کرنا چاہتا ہے۔ ایسے تابع مہمل حکمران جو امریکا اور بھارت کے آگے روبوٹس کا کردار ادا کریں۔ اسی لیے جنوبی ایشیائی ملکوں میں سیاسی کشمکش کو ہوا بھی دی جا رہی اور بحران بھی کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا تعلق بھی کہیں نہ کہیں اسی سوچ اور حکمت عملی سے ملتا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی ساری مارا ماری کے پیچھے بھی بھارت اور امریکا کی یہی حکمت عملی ہے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے من پسند کرداروں کو آگے بڑھا کرکشمکش کو ہوا دی گئی ہے۔ یہ کردار کسی مقبول سوچ کے ترجمان نہیں بلکہ بون کانفرنس میں جنم لینے والے ایک بند کمرہ اجلاس کا نتیجہ ہیں۔ بھارت کی خواہش کے آگے سب سے طاقتور ملک کے طور پر صرف پاکستان ہی کھڑا ہے۔ اس وقت پاکستان پورے جنوبی ایشیا کے تحفظ اور اقتدار اعلیٰ کی جنگ لڑ رہا ہے۔ مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت کے خواب یک طرفہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور پاکستان ان خوابوں کے آگے اسپیڈ بریکر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ بنگلا دیش، سری لنکا کے بعد مالدیپ کے سیاسی بحران کی ڈور کا سرا بھی دہلی سے برآمد ہونا انہی عزائم اور ارادوں کا عکاس ہے۔