صرف 8روز میں پارٹی اس مقام پر پہنچ گئی جہاں سے واپسی ناممکن لگتی ہے‘دونوں گروپ ان کارکنان کے منتظرہیں جن کی34برس تک کوئی اہمیت نہیں تھی

238

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 5 فروری سے 13 فروری تک انتہائی کم دنوں میں اس جگہ پہنچ چکی ہے جہاں سے اس کی دوبارہ واپسی ناممکن نظر آتی ہے۔ پیر کالونی میں ڈاکٹر فاروق ستار اور بہادر آباد میں عامر خان کی سربراہی میں موجود دھڑے اب ان کارکنوں پر اکتفا کررہے ہیں جو کم و بیش
34 سال تک ناسمجھ ” ہجوم کا کردار ادا کرتے رہے جو صرف قیادت کی ہاں میں ہاں ملایا کرتا تھا۔ دو روز قبل پیر کالونی کے کے ایم سی گراؤنڈ میں جنرل ورکرز اجلاس میں کارکنوں سے رائے لے کر رابطہ کمیٹی تحلیل کردی جبکہ بہادر آباد میں موجود گروپ جس نے 7 فروری کو فاروق ستار کو رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے ذریعے پارٹی سربراہی اور کنوینر کے اختیار لے لیے تھے۔اب خود الیکشن کمیشن کے تازہ فیصلوں رولنگ کے سبب پریشان نظر آتے ہیں۔ سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان اگرچہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے کنوینر بنائے جانے کے بعد سے خاموش نظر آرہے ہیں تاہم گروپ میں شامل رابطہ کمیٹی کے دیگر ارکان کا موقف ہے کہ وہ عامر خان کو ہی اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن دستاویزات یہ ظاہر کررہے ہیں کہ دونوں گروپ 2 ڈاکٹروں کی نگرانی میں ایم کیو ایم پاکستان کے مستقبل کے لیے فکرمند ہے ۔ اسی فکر میں اپنا وزن ظاہر کرنے کے لیے اس گروپ نے بھی 16 فروری کو جنرل ورکرز اجلاس طلب کرلیا ہے جو ناظم آباد میں ہوگا۔ پی آئی بی میں ہونے والے ورکرز اجلاس کے بارے میں مخالف گروپ کا کہنا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کا اجلاس تھا تو حاضری رجسٹر دکھائے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ہی آئی بی کے جلسے اور اس کے فیصلوں کو نہیں مانتے کیونکہ وہ قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جس طرح دونوں گروپ واضح طور پر تقسیم ہونے کے باوجود یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایم کیو ایم تقسیم ہوچکی ہے۔ سینئر اور مقبول رہنما اور قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار اپنے گروپ کی سربراہی سنبھالنے کے باوجود کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک ہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ بہادرآباد چلے گئے ہیں وہ واپس آجائیں۔ ایم کیو ایم کے موجودہ حالات جیسے بھی ہوں یہ بات واضح ہے کہ اب نہ صرف کارکن ہی نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں اور پارلیمانی اداروں میں موجود اراکین بھی ماضی کے مقابلے میں اب ” آزاد ” نظر آرہے ہیں کیونکہ وہ بھی طے نہیں کر پارہے کہ وہ کس دھڑے کو تسلیم کریں اور کسے نہ کریں۔ یہ صورتحال قومی اور سندھ اسمبلی میں موجود سینیٹ کے ووٹرز کے لیے بہت اہم ہے ۔اس لیے کہ اب وہ اپنی پارٹی میں ہونے والی گروپ بندی کی وجہ سے سینیٹ کے ووٹ دینے کے لیے سیاسی طور پر خود فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن ایسے میں ایم کیو ایم کی جانب سے نامزد کردہ امیدواروں کی کامیابی کے امکانات معدوم نظر آرہے ہیں تاہم اس بارے میں بھی صورتحال 2 مارچ کو سینیٹ کے انتخابی نتائج سے واضح ہوسکے گی۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالد مقبول کے لیے اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنے اراکین اسمبلی کو کس طرح پارٹی کی روایت کے مطابق کنٹرول میں رکھ سکیں گے۔ سندھ اسمبلی میں حق پرست گروپ کے پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہارالحسن ان دنوں دونوں ہی گروپ سے نالاں نظر آتے ہیں ،ایسے میں ان کا ووٹ کس کے لیے ہوگا یہ بھی ایک سوال ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی کی کونسل میں بھی ممبران تقسیم دکھائی دے رہے ہیں۔ بلدیہ وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی اجلاس میں نہیں پہنچے تھے تاہم بلدیہ شرقی کے چیئرمین معید انور اور بلدیہ کورنگی کے نیئر رضا آج ہونے والے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت میئر وسیم اختر نے ہی کی۔ اگر ایم کیو ایم میں دھڑے بندی مستحکم ہوگی تو اس سے بلدیہ کراچی کی کونسل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گی ۔