لباس کے آداب

1106

مولانا یوسف اصلاحی

بعض لوگ پھٹے پرانے اور پیوند لگے کپڑے پہن کر شکستہ حال بنے رہتے ہیں اور اس کو دینداری سمجھتے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کو دنیا دار سمجھتے ہیں جو صاف ستھرے سلیقے کے کپڑے پہنتے ہیں حالانکہ دینداری کا یہ تصور سراسر غلط ہے۔ حضرت ابوالحسن علی شاذلیؒ ایک بار نہایت ہی عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے، کسی شکستہ حال صوفی نے ان کے اس ٹھاٹ باٹ پر اعتراض کیا کہ بھلا اللہ والوں کو ایسا بیش بہا لباس پہننے کی کیا ضرورت؟ حضرت شاذلیؒ نے جواب دیا ’بھائی یہ شان و شوکت عظمت و شان والے خدا کی حمد و شکر کا اظہار ہے اور تمہاری یہ شکستہ حال صورت سوال ہے تم زبانِ حال سے بندوں سے سوال کررہے ہو‘۔ دراصل دینداری کا انحصار نہ پھٹے پرانے پیوند لگے گھٹیا کپڑے پہننے پر ہے اور نہ لباس فاخرہ پہننے پر دینداری کا دارومدار آدمی کی نیت اور صحیح فکر پر ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی ہر معاملے میں اپنی وسعت اور حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اعتدال اور توازن کی روش رکھے، نہ شکستہ صورت بنا کر نفس کو موٹا ہونے کا موقع دے اور نہ زرق برق لباس پہن کر فخر و غرور دکھائے۔
حضرت ابوالاحوصؒ کے والد اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میرے جسم پر نہایت ہی گھٹیا اور معمولی کپڑے تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ میں نے کہا جی ہاں، دریافت فرمایا کس طرح کا مال ہے؟ میں نے کہا خدا نے مجھے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے اونٹ بھی ہیں، گائیں بھی ہیں، بکریاں بھی ہیں، گھوڑے بھی ہیں اور غلام بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب خدا نے تمہیں مال و دولت سے نواز رکھا ہے تو اس کے فضل و احسان کا اثر تمہارے جسم پر ظاہر ہونا چاہیے۔ (مشکوٰۃ)
مطلب یہ ہے کہ جب خدا نے تمہیں سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر تم نے ناداروں اور فقیروں کی طرح اپنا حلیہ کیوں بنا رکھا ہے؟۔ یہ تو خدا کی ناشکری ہے۔
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملاقات کی غرض سے ہمارے یہاں تشریف لائے تو آپؐ نے ایک آدمی کو دیکھا جو گرد و غبار میں اَٹا ہوا تھا۔ اور اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا۔ کیا اس آدمی کے پاس کوئی کنگھا نہیں ہے جس سے یہ اپنے بالوں کو درست کرلیتا؟ اور آپ نے ایک دوسرے آدمی کو دیکھا جس نے میلے کپڑے پہن رکھے تھے۔ آپؐ نے فرمایا۔ کیا اس آدمی کے پاس وہ چیز (یعنی صابن وغیرہ) نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھو لیتا‘۔ (مشکوٰۃ)
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ! میں چاہتا ہوں کہ میرا لباس نہایت عمدہ ہو، سر میں تیل لگا ہو، جوتے بھی نفیس ہوں، اسی طرح اس نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا۔ یہاں تک کہ اس نے کہا میرا جی چاہتا ہے کہ میرا کوڑا بھی نہایت عمدہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گفتگو سنتے رہے پھر فرمایا ’یہ ساری ہی باتیں پسندیدہ ہیں اور خدا اس لطیف ذوق کو اچھی نظرسے دیکھتا ہے‘۔ (مسدرک حاکم)
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں ’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ یا رسول اللہ! کیا یہ تکبر اور غرور ہے کہ میں نفیس اور عمدہ کپڑے پہنوں، آپؐ نے ارشاد فرمایا نہیں، بلکہ یہ تو خوبصورتی ہے اور خدا اس خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے‘۔ (ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ ابن عمر ہی کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز میں دونوں کپڑے پہن لیا کرو (یعنی پورے لباس سے آراستہ ہوجایا کرو) خدا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی حضوری میں آدمی اچھی طرح بن سنور کر جائے‘۔ (مشکوٰۃ)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’جس کے دل میں ذرہ بھر بھی غرور ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا۔ ایک شخص نے کہا۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے عمدہ ہوں، اس کے جوتے عمدہ ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا خود صاحب جمال ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے (یعنی عمدہ نفیس پہناوا غرور نہیں ہے) غرور تو دراصل یہ ہے کہ آدمی حق سے بے نیازی برتے اور لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھے۔ (مسلم)
-15 پہننے اوڑھنے اور بنائو سنگھار کرنے میں بھی ذوق اور سلیقے کا پورا پورا خیال رکھیے۔ گریبان کھولے کھولے پھرنا، الٹے سیدھے بٹن لگانا، ایک پائنچہ چڑھانا اور ایک نیچا رکھنا اور ایک جوتا پہنے پہنے چلنا، یا اُلجھے ہوئے بال رکھنا۔ یہ سب ہی باتیں ذوق اور سلیقے کے خلاف ہیں۔
ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ اتنے میں ایک شخص مسجد میں آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جا کر اپنے سر کے بال اور داڑھی کو سنوارو۔ چنانچہ وہ شخص گیا اور بالوں کو بنا سنوار کر آیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: کیا یہ زینت و آرائش اس سے بہتر نہیں ہے کہ آدمی کے بال اُلجھے ہوئے ہوں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ شیطان ہے!‘۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’کہ ایک جوتا پہن کر کوئی نہ چلے یا دونوں پہن کر چلو یا دونوں اُتار کر چلو۔ (ترمذی) اور اسی حدیث کی روشنی میں علما دین نے ایک آستین اور ایک موزہ پہننے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔
-16 سرخ اور شوخ رنگ اور زرق برق پوشاک اور نمائشی سیاہ کپڑے پہننے سے بھی پرہیز کیجیے۔ سرخ اور شوخ رنگ اور زرق برق پوشاک عورتوں ہی کے لیے مناسب ہے اور ان کو بھی حدود کا خیال رکھنا چاہیے۔ رہے نمائشی لمبے چوڑے جُبّے یا سیاہ اور گہرے رنگ کے جوڑے پہن کر دوسروں کے مقابل میں اپنی برتری دکھانا اور اپنا امتیاز جتانا تو یہ سراسر کبر و غرور کی علامت ہے۔ اسی طرح ایسے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز کپڑے بھی نہ پہنیے جس کے پہننے سے آپ خواہ مخواہ عجوبہ بن جائیں اور لوگ آپ کو ہنسی اور دل لگی کا موضوع بنالیں۔
-17 ہمیشہ سادہ، باوقار اور مہذب لباس پہنیے اور لباس پر ہمیشہ اعتدال کے ساتھ خرچ کیجیے۔ لباس میں عیش پسندی اور ضرورت سے زیادہ نزاکت سے پرہیز کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
’عیش پسندی سے دور رہو، اس لیے کہ خدا کے پیارے بندے عیش پرست نہیں ہوتے‘۔ (مشکوٰۃ)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے وسعت اور قدرت کے باوجود محض خاکساری اور عاجزی کی غرض سے لباس میں سادگی اختیار کی تو خدا اس کو شرافت اور بزرگی کے لباس سے آراستہ فرمائے گا۔ (ابودائود)
صحابہ کرام ایک دن بیٹھے دنیا کا ذکر فرمارہے تھے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لباس کی سادگی ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ (ابودائود)
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’خدا کے بہت سے بندے جن کی ظاہری حالت نہایت ہی معمولی ہوتی ہے، بال پریشان اور غبار میں اَٹے ہوئے، کپڑے معمولی اور سادہ ہوتے ہیں لیکن خدا کی نظر میں ان کا مرتبہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا بیٹھیں تو خدا ان کی قسم کو پورا ہی فرمادیتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں میں سے ایک برار ابن مالکؓ بھی ہیں۔ (ترمذی)

-18 خدا کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے ان ناداروں کو بھی پہنائیے جن کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کچھ نہ ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’جو شخص کسی مسلمان کو کپڑے پہنا کر اس کی تن پوشی کرے گا تو خدا تعالیٰ قیامت کے روز جنت کا سبز لباس پہنا کر اس کی تن پوشی فرمائے گا۔ (ابودائود)
اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ کسی مسلمان نے اپنے مسلمان بھائی کو کپڑے پہنائے تو جب تک وہ کپڑے پہننے والے کے بدن پر رہیں گے پہنانے والے کو خدا اپنی نگرانی اور حفاظت میں رکھے گا‘۔ (ترمذی)
-19 اپنے ان نوکروں اور خادموں کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنائیے جو شب و روز آپ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لونڈی اور غلام تمہارے بھائی ہیں، خدا نے ان کو تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے۔ پس تم میں سے جس کسی کے قبضہ و تصرف میں خدا نے کسی کو دے رکھا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اُسے ویسا ہی لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اس پر کام کا اتنا ہی بوجھ ڈالے جو اُس کے سہار سے زیادہ نہ ہو، اور اگر وہ اس کام کو نہ کر پارہا ہو تو خود اس کام میں اس کی مدد کرے۔ (بخاری، مسلم)