مِرگی کے 70 فیصد مریض ادویات سے ٹھیک ہوجاتے ہیں‘ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

2453

قابل علاج دماغی مرض کی علامات ایک سی نہیں ہوتیں‘ کبھی دورے پڑتے ہیں تو کبھی آنکھیں اوپر چڑھ جاتی ہیں‘ جسم اکڑ جاتا ہے، منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے
انفیکشن زیادہ ہونے کے باعث دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں متاثرہ افراد کی شرح بھی زیادہ ہے‘ معروف نیورولوجسٹ سے خصوصی بات چیت

گفتگو: نذیر الحسن

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ملک کی مشہور و معروف نیورولوجسٹ اور ایپی لیپسی اسپیشلسٹ ہیں جو آغا خان اسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ایپی لیپسی (مرگی) کے عالمی دن کی مناسبت سے ڈاکٹر فوزیہ سے کی گئی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

1-1

جسارت: بنیادی طور پر مِرگی کا مرض کیا اور کیسے ہوتا ہے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: مِرگی یعنی ایپی لیپسی بنیادی طور پر ایک دماغی مرض ہے جو دماغ کے خلیوں میں دوڑنے والی برقی رو میں خلل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسے آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ شارٹ سرکٹ ہوگیا ہو۔ اس مرض میں کبھی آنکھیں اوپر چڑھ جاتی ہیں، آدمی گم صم ہوجاتا ہے، دورے پڑتے ہیں اور کبھی بازو ہلنے لگتا ہے، اس سے سارا جسم متاثر ہوتا ہے۔ یہ مرض عام طور پر اس وقت تشخیص کیا جاسکتا ہے جب دورہ پڑے۔ مِرگی بنیادی طور پر مختلف کیفیات کی بھی علامت ہے۔ جس میں دماغی مرض یا اعصابی خرابی تقریباً سبھی صورتیں مرگی کا حصہ بن سکتی ہیں مگر اکثر اس کی وجوہات نامعلوم ہیں۔ مرگی کو بنیادی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جنہیں جزلائزڈ اور فوکل کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مرگی کی علامات ایک سی نہیں ہوتیں۔ کبھی دورے پڑتے ہیں، کبھی خلا میں گھورنے لگتا ہے، جسم اکڑ جاتا ہے، منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے۔
جسارت: کیا مرگی کا مرض موروثی ہوتا ہے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: نہیں! یہ مرض موروثی نہیں ہوتا۔ 95 فیصد مرض موروثی نہیں ہوتا، 5 فیصد میں یہ امکان ہوتا ہے کہ یہ منتقل ہواہو۔ عام طور پر یہ موروثی مرض نہیں ہے۔
جسارت: مرگی کے مرض کی کیا وجوہات ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: پاکستان میں آبادی کا ایک فیصد یعنی 20 لاکھ افراد مرگی کا شکار ہیں دیگر ممالک میں یہ شرح کم ہے، پاکستان میں مرگی کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں انفیکشن زیادہ ہیں۔ ٹی بی، ٹائیفائیڈ، گردن توڑ بخار اس کی اہم وجوہات ہیں جبکہ سر میں چوٹ، دماغ کے اندر انفیکشن، شوگر اور بلڈ پریشر، مختلف نمکیات کے کم یا زیادہ ہونے اور الکوحل کے استعمال سے بھی مرگی کا مرض ہوتا ہے۔ یہ مرض ابتدائی عمر جوانی اور 50 سال کے بعد بھی ہوسکتا ہے۔ بچپن میں انفیکشن یا آکسیجن کی کمی سے بھی یہ ہوتا ہے۔ 50 سال کے بعد مرگی ہونے کی اہم وجہ ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور برین ٹیومر ہے۔
جسارت: مرگی کی کتنی اقسام ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: مرگی کی کئی اقسام ہیں جن کا انحصار دماغ کے متاثر ہونے پر ہے۔ لوگ کسی بھی طرح کے دورے کی قسم سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگ مسلسل علامات سے دوچار ہوتے ہیں۔ کبھی مریض اچانک گم صم ہو جاتا ہے، ماں باپ کو پتا ہی نہیں لگتا بچہ پڑھائی میں دھیان نہیں دیتا، پھر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور جب معاملہ نیورولوجسٹ کے پاس آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ اس مرض میں متاثرہ فرد کبھی اپنے اردگرد کے ماحول سے انجان ہوجاتا ہے، کچھ لوگ اپنی آنکھیں گھمانے لگتے ہیں۔
جسارت: کیا یہ قابل علاج مرض ہے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: جی یہ قابل علاج مرض ہے۔ 70 فیصد مریض ادویات سے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرجری بھی ہوسکتی ہے اور اس کی مختلف ڈیوائسز بھی موجود ہیں جو دوروں کو روکنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں مگر قیمت اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان میں عام آدمی اس کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا۔
جسارت: ہمارے معاشرے میں مرگی کے مریضوں کو جوتا سنگھانے کی رویات ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: دیکھیں ہمارے معاشرے میں مرگی کو ہمیشہ آسیب کا سایہ سمجھا گیا جبکہ یہ ایک ذہنی مرض ہے۔ قدیم زمانے سے یہ المیہ ہوتا آیا ہے کہ مرگی کے مریض کا علاج جھاڑ پھونک سے کرنے کی کوشش کی گئی اور اسے جن بھوت کا سایہ سمجھا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ اسی سائے کے نتیجے میں دورہ پڑتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں۔ مرگی کا دورہ جب بھی پڑتا ہے ایک سے دو منٹ تک جاری رہتا ہے اور اس کے بعد مریض خود ٹھیک ہوجاتا ہے۔ عموماً جب کسی کو مرگی کا دورہ پڑتا ہے تو گھر والے پرانے جوتے تلاش کرتے ہیں اور اس تلاش ہی میں ایک دو منٹ گزر جاتے ہیں جس کے بعد جوتا سنگھایا جاتا ہے، دو منٹ بعد تو مریض خود ہی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ مگر یہ فرض کرلیا گیا کہ مریض جوتا سنگھانے سے ٹھیک ہوا ہے۔