خیبرپختونخوا میں مذہب کی سیاست

390

متین فکری

خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت نے چند روز پہلے صوبے میں ائمہ مساجد کے لیے دس ہزار روپے ماہانہ گزارہ الاؤنس کا اعلان کیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ملک کی بیشتر مساجد کے امام سخت تنگدستی اور غربت کا شکار ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جو لوگ امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتے ہیں ان کی گزربسر بالعموم لوگوں کے عطیات پر ہوتی ہے اور یہ ائمہ نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ شہروں میں ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت مسجد کمیٹیاں مسجد کا نظام چلاتی ہیں، یہ کمیٹیاں اپنے اپنے محلے سے چندہ جمع کرتی، مخیر حضرات سے عطیات وصول کرتی اور اپنے وسائل کے مطابق ائمہ مساجد کا مشاہرہ مقرر کرتی ہیں البتہ اوقاف کی مساجد میں اماموں کا تقرر محکمہ اوقات کرتا ہے اور سرکاری اسکیل کے مطابق انہیں تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ دیکھا جائے تو ایک اسلامی حکومت میں تبلیغ و اشاعت دین حکومت کی ذمے داری ہے اور مساجد کا اس حوالے سے نہایت اہم اور بنیادی کردار ہے اس لیے مساجد کا انتظام و انصرام حکومت کے پاس ہونا چاہیے تا کہ ائمہ مساجد فکر معاش سے آزاد ہوکر اقامت صلوٰۃ اور تدریس قرآن کا فریضہ انجام دیں اور وطن عزیز میں اسلامی ماحول کے فروغ میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ضرور ہے لیکن اس میں ابھی تک نفاذ اسلام کا خواب پورا نہیں ہوسکا اس لیے پاکستان کی کسی وفاقی یا صوبائی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ ائمہ مساجد کی فلاح وبہبود پر توجہ دے گی محض ایک خواہش لا حاصل سے زیادہ نہیں ہے۔ ایسے میں خیبرپختونخوا حکومت کا ائمہ مساجد کے لیے دس ہزار روپے ماہانہ گزارہ الاؤنس مقرر کرنا ایک حوصلہ افزا قدم تو ہے لیکن یہ قدم آج سے ساڑھے چار سال پہلے حکومت کی ابتدا میں اُٹھایا جاتا تو بلاشبہ اسے قابل تعریف قرار دیا جاسکتا تھا اور اہل مذہب کی فلاح میں پی ٹی آئی حکومت کی دلچسپی کو سراہا جاسکتا تھا لیکن یہ کام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب انتخابات سر پہ ہیں اور حکومت چند ماہ میں ختم ہونے والی ہے۔
انتخابات آئین کے مطابق وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں کے زیر انتظام ہوں گے اور یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ خیبرپختونخوا میں جو نگران حکومت قائم ہوگی وہ پی ٹی آئی حکومت کی اس کارروائی کو برقرار رکھتی ہے یا نہیں اس لیے ائمہ مساجد کے اس فلاحی پروگرام کو سیاسی چال کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے یہ چال بڑی ہوشیاری سے چلی ہے اگر نگران حکومت ائمہ مساجد کا ماہانہ وظیفہ بند کردیتی ہے تو بھی پی ٹی آئی والے یہ کہہ کر ائمہ مساجد کی ہمدردی حاصل کرسکتے ہیں کہ انہیں ووٹ دیا گیا تو وہ برسراقتدار آکر یہ سہولت پھر بحال کردیں گے۔ خیبرپختونخوا میں دوسرے صوبوں کی نسبت مذہب کی جڑیں بہت گہری ہیں اور خاص طور پر نماز کی پابندی پختون عوام کے کلچر میں شامل ہے۔ ائمہ مساجد کو لوگ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا مانتے ہیں، اگر وہ اپنے ماہانہ وظیفے کو برقرار رکھنے کے لیے تحریک انصاف کے حق میں انتخابی مہم چلائیں تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت رواں مالی سال کے بجٹ میں صوبے کے سب سے بڑے دینی مدرسے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لیے 2 کروڑ روپے کی امداد مختص کرچکی ہے۔ یہ بھی ایک موثر مذہبی حلقے کو اپنی طرف مائل کرنے کی نتیجہ خیز کوشش تھی۔
تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس کی کارکردگی عوام کی توقعات کے مطابق نہیں رہی، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتائج اس کے حق میں خوشگوار نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف کا اصل مقابلہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) سے ہے جس کو ازسرنو بحال اور فعال کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ مذہبی جماعتوں کا یہ اتحاد جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے نے پانچ سال تک حکومت بھی کی ہے، پارلیمنٹ میں بھی اسے قابل ذکر نمائندگی حاصل تھی لیکن وہ اپنی ایک رکن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مصلحت اندیش پالیسی کے سبب پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے خلاف کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کرسکی۔ اس طرح جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا جو بالآخر ایم ایم اے کے غیر فعال ہونے پر منتج ہوا لیکن اب حالات کے جبر نے انہیں پھر متحد ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ مذہبی جماعتوں میں لاکھ اختلافات سہی تاہم وہ بجا طورپر یہ محسوس کرتی ہیں کہ اگر وہ متحد نہ ہوئیں تو ان کے ووٹ بٹ جائیں گے اور پارلیمانی جمہوریت میں وہ بے وزن ہوکر رہ جائیں گی۔ اس احساس نے انہیں ایم ایم اے کی لڑی میں پرو دیا ہے۔ تحریک انصاف کو اندازہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں اس کا مقابلہ ایم ایم اے سے ہوگا اس لیے مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں وہ بھی مذہب کا کھیل کھیل رہی ہے، اس نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو مالی امداد دے کر مدرسے کے مہتم اعلیٰ مولانا سمیع الحق کو ایم ایم اے کا حصہ بننے سے روک دیا ہے۔ حالاں کہ اس سے پہلے ان کی جمعیت علمائے اسلام (س) بھی ایم ایم اے میں شامل تھی، اب آئندہ انتخابات میں وہ تحریک انصاف کا ساتھ دے گی جب کہ ائمہ مساجد کو حکومت کا وظیفہ خوار بنا کر پی ٹی آئی نے اپنی دانست میں ایک اور لشکر ایم ایم اے کے خلاف میدان میں اُتار دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ عام انتخابات اس سال جولائی میں ہوں گے۔ سب سے دلچسپ انتخابی معرکہ خیبرپختونخوا میں ہوگا جہاں مذہب کو میدان میں اُتارا جائے گا اور تحریک انصاف اس صوبے پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے مقابلے میں مذہب کو استعمال کرے گی لیکن نتیجہ شاید پھر بھی اس کی توقعات کے مطابق نہ نکلے کہ نگران حکومت قائم ہوتے ہی ڈور اس کے ہاتھ سے پھسل جائے گی۔