ایم کیو ایم، مکافات اور خدشات! 

445

محمد انور

11جون 1978 کو قائم کی جانے والی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نوجوانوں کے ہاتھوں 6 سال بعد 23 مارچ 1984 کو غیر فطری طور پر تخلیق پانے والی ایم کیو ایم کے مستقبل کے حوالے سے جو بھی توقعات دانشوارانہ اذہان کو تھی سب ہی تو پوری ہورہی ہیں۔ سخت ترین آمریت کے دور میں قائم ہوکر جمہوری ادوار میں پنپنے والی جماعت سے اور کیا توقعات رکھی جاسکتی تھی اور کیا رکھی جائے گی۔ جس طرح ہر بری گھڑی میں اس پارٹی کو ’’مہاجروں‘‘ کی یاد آئی اسی طرح ہر دور میں قوانین کی خلاف ورزیاں کرنے والی اس ایم کیو ایم کو پریشانی اور مشکلات میں ’’ملکی قوانین‘‘ بھی اچھے لگنے لگے۔ ان دنوں وہ اپنی ہی پارٹی کو چلانے کے لیے بنائے ہوئے ’’بائی لاز‘‘ کو نہ صرف کھولنے پر مجبور ہوگئی ہے بلکہ لوگوں کو بتا بھی رہی ہے کہ پارٹی کا آئین یہ ہے۔ کنوینر کے اختیارات کیا کیا ہیں کیا نہیں اور کون رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرسکتا ہے، کون کنوینر کو عہدے سے فارغ کرسکتا ہے۔
قوم تو سمجھ رہی تھی کہ اس جماعت کا کوئی قانون و ضابطہ ہی نہیں ہے۔ یہ ہر قانون و اصول سے پاک ہے۔ یہ بات پہلی بار ہی تو سامنے آرہی ہے کہ ایم کیو ایم بھی قوانین کے اندر بندھی ہوئی جماعت ہے۔ اس کے قوانین کی کاپی نہ صرف الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہے بلکہ اس پر وہ ترمیم بھی کرچکی ہے۔ شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اسے 30نومبر 2017 کو ترمیم کرنے کی ضرورت پڑی۔ لیکن ترامیم کرنے والے ہی بعض نکات بھول گئے۔ یا اس کی باریکیوں کو سامنے نہیں رکھا۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جس جماعت میں ’’طاقت کا قانون‘‘ رائج رہا۔ جہاں اس قانون پر عمل کرانے کے لیے اس کی اپنی ’’عسکری فورس‘‘ قائد کے ایک مخصوص اشارے کی منتظر رہا کرتی تھی وہاں کتابی شکل میں الماری میں بند قوانین کی کیوں ضرورت پڑی؟ ظاہر ہے جب ملکی قوانین کو استعمال کرنے والے فعال ہوں تو کون ہے جو دیگر قوانین کا استعمال کرسکتا ہے۔
جب 2013میں پاک فوج اور جمہوری حکومت نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنا ہے تو پھر سب ہی کچھ تو معمول پر آنے لگا۔ صوبائی حکومت کی مرضی کے خلاف بھی جرائم پیشہ اور بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اور ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ والوں کی بھی دوڑیں لگوائی گئیں۔ نتیجہ میں اسلحہ کے ذریعے اپنی بات منوانے والوں کو بھی اپنے بنائے ہوئے قوانین یاد آنے لگے۔ اور لوگوں کی زبانوں پر یہ چرچا ہونے لگا کہ اگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے فیصلہ کرلیں تو پھر سب کچھ ممکن ہوجاتا ہے۔ گھنٹوں کے نوٹس پر کراچی اور دیگر شہر بند کرانے والے خود ہی بند گلی کے مکین ہوکر رہ جاتے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ’’چشم پوشی‘‘ کی وجہ سے عوامی طاقت کے نام پر غیر قانونی طاقت کا اظہار کرکے لوگوں میں خوف کا راج قائم کردینے والے خود ہی خوف زدہ ہوکر بلوں میں چھپ جایا کرتے ہیں۔ کیوں کہ قانون نہیں قانون نافذ کرنے والے اپنی ڈیوٹیاں درست طریقے سے کرنے لگتے ہیں۔ کاش یہ سب کچھ پہلے ہی کرلیا جاتا۔
کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں ملکی عسکری اداروں کے ’’کراچی آپریشن‘‘ سے امن و امان بحال ہونا شروع ہوا تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ یہ سب کچھ وقتی اور ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے کیوں کہ کراچی اور خصوصاً مہاجروں سے کوئی مخلص نہیں ہے۔ لیکن الحمدللہ اب وقتی امن کا تاثر بھی ختم ہوگیا۔
اب لوگ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جس ایم کیو ایم میں اختلاف کے ساتھ ہی نوجوانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوجایا کرتا تھا اور عہدیدار سکون سے اپنے معمولات میں مشغول نظر آتے تھے اب واضح طور پر ’’گرم جنگ‘‘ چھڑ جانے کے باوجود وہاں صرف بے بسی کے آنسو بہائے جارہے ہیں۔ قوم کو ان آبدیدہ آنکھوں کو دیکھ کر بھی دکھ ہورہا ہے۔ سب ہی یقیناًیہ سوچتے ہوں گے کہ کاش آج آنسو بہانے والے کل قانون کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کرلیتے۔ اگر ایسا ہوجاتا تو کئی بیٹے جانوں سے نہیں جاتے، سیکڑوں ماؤں کی گودیں نہ اجڑتیں، کڑیل جوانوں کی دلہنیں بیوہ نہیں ہوتیں اور متعدد معصوم بچے یتیم نہ ہوتے۔
چلیے حکمرانوں اور عسکری ادارے کی کارروائی سے سب کچھ بہتر ہوگیا۔ اور بہت کچھ بدل رہا ہے۔ ایم کیو ایم اگر آج قوانین پر عمل کرنے اور اس کا سہارا لینے جارہی ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ یہ بہت مثالی اور اچھا امر ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ یقیناًمکافات عمل ہے۔ ایسا مکافات جسے دیکھنے والے بھی خوف زدہ ہوکر اپنے گناہوں سے توبہ کررہے ہیں۔ صرف ایم کیو ایم کے اندر ہی جرائم پیشہ موجود نہیں تھے بلکہ ملک کی دیگر جماعتوں پیپلز پارٹی، اے این پی اور دیگر قوم پرست جماعتوں میں بھی ایسے عناصر موجود تھے جو اب ختم ہوگئے یا توبہ کرکے اپنی اصلاح کر بیٹھے۔
مگر ڈر پھر بھی ہے کیوں کہ چند روز قبل ایک اہم عسکری شخصیت نے خود اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ’’انتخابات سے قبل کراچی میں امن و امان کی فضاء خراب ہوسکتی ہے۔ یقین ہے کہ مذکورہ ذمے دار نے ان خدشات کو دور کرنے کے لیے بھی سخت اقدامات کرلیے ہوں گے۔ ویسے بھی ایسے انتخابات کا کیا فائدہ جو خوف کے عالم میں ہوں، جس میں ووٹرز آزادی سے اپنا حق استعمال نہ کرسکے؟
یہ سوالات تو اپنی جگہ لیکن سب سے اہم معاملہ یا سوال یہ ہے کہ کراچی پر کس کا کنٹرول ہوگا۔ ایم کیو ایم تو اب حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مہاجروں اور کراچی میں بسنے والوں کی اکثریت کا ووٹ اب کسی ایک پارٹی کا نہیں ہوسکے گا۔ اگر ایسا بھی نہیں ہوسکا تو کیا تمام جماعتیں انتخابی اتحاد بناکر سامنے آئیں گی۔ ایسی صورت میں کیا کامیاب ہونے والی پارٹیاں کراچی کا مقدمہ لڑسکیں گی یا پھر اپنے اختلاف کو لڑائیوں میں تبدیل کرکے مسائل میں اضافے کا باعث بنیں گی؟ توقع ہے کہ ایم کیو ایم کے مکافات سے دیگر پارٹیاں بھی اپنے اندر کی کمزوریوں کو دور کرکے حقیقی عوامی خدمت گار بن جائیں گی۔ ایسا ہوا تو یہ جمہوری عمل کی کامیابی کہلائے گا۔ لیکن انتخابات کا انعقاد شفاف اور منصفانہ ہونا بھی ضروری ہے نا کہ صرف اس کے دعووں تک بات رہے۔ لوگ یقیناًاس وقت بہت مایوس ہوں گے جب طاقت ور اداروں کی جانب سے کسی اور پارٹی کو انتخابات میں کامیاب کرانے کے لیے اس کے ساتھ نرمی برتی جائے گی۔ ایسی صورت میں نکلنے والے تمام نتائج کی ذمے داری بھی ان ہی اداروں پر عائد ہوگی۔