ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی نے بر سر اقتدار آنے کے فوراً بعد، پاکستان کا محاصرہ کرنے اور سفارتی طور پر تنہا کرنے کے لیے نہایت منظم جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے شروعات، کشمیر میں حریت پسندوں کی مسلح جدوجہد پر پردہ ڈالنے کے لیے سرحد پار پاکستان سے دہشت گردی کا شور مچا کر کی اور 2016 میں اسلام آباد میں سارک کی سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا جس میں بنگلا دیش، نیپال، سری لنکا، بھوٹان کو بھی دباؤ ڈال کر بائیکاٹ میں شریک کیا تھا۔
پھر مشرق میں سارک کے مقابلہ میں BIMSTEC کا محاذ قائم کیا جس میں ہندوستان کے ساتھ بنگلا دیش، برما، سری لنکا، تھائی لینڈ، بھوٹان اور نیپال کو شامل کیا گیا ۔
اس کے فوراً بعد نریندر مودی نے مغرب میں بڑے پیمانے پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور اسرائیل کے دوروں کا سلسلہ شروع کیا۔ سعودی عرب پر انہوں نے خاص طور پر زور دیا ہے جس کے چار بنیادی مقاصد ہیں۔
اول۔ سعودی عرب میں چار لاکھ کے قریب ہندوستانی برسر روزگار ہیں جن کے مفاد کا وہ تحفظ چاہتے ہیں کیوں کہ یہ ہندوستانی وافر رقومات ہندوستان بھیجتے ہیں۔
دوم، ہندوستان، تیل، گیس اور توانائی کے شعبوں میں وسیع تر تعاون کا خواہاں ہے۔
سوم، نریندر مودی ہندوستان کے عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ مسلم ممالک کے حکمرانوں میں کس قدر مقبول ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ گجرات کے مسلم کُش فسادات کا ان کے دامن پر جو داغ لگا ہے مسلم حکمرانوں نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ نریندر مودی اس سلسلہ میں سعودی عرب کا سب سے بڑا اعزاز عبد العزیز ایوارڈ ہندوستان کے عوام اور مسلمانوں کو دکھاتے ہیں جو سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان نے انہیں ریاض کی شاہی تقریب میں پیش کیا تھا۔
چہارم، ایک اہم پہلو، سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے سعودی عرب اور اس کے توسط سے عرب ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہے۔
گزشتہ سال جولائی میں نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کیا تھا، لیکن وہ مصلحتاً فلسطین کی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے ملنے رام اللہ نہیں گئے کیوں کہ اسرائیل کی ناراضی کا خطرہ تھا۔ ہندوستان کے مسلمان اس بات پر مودی سے خوش نہیں تھے۔ لیکن نرنیدر مودی کے لیے اسرائیل کا دورہ بے حد اہمیت کا حامل تھا جس کے دوران انہوں نے اسرائیل سے اربوں ڈالر کی مالیت کے ڈرون اور میزائل کی خریداری کے سودے کیے اور ہندوستان اور اسرائیل کے مشترکہ نئے میزائل سسٹم کی تیاری کا منصوبہ منظور کیا۔ ہندوستان پہلے ہی اسلحہ کے میدان میں پاکستان کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل سے ایک ارب ڈالر کی مالیت کا اسلحہ خرید رہا ہے۔
پھر پانچ ماہ بعد اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کو مودی نے ہندوستان کے دورے کی دعوت دی اور اسرائیلی وزیر اعظم سے ایسی بے تابی سے گلے ملے کہ جیسے برسوں انہوں نے اسرئیلی وزیر اعظم کو نہیں دیکھا تھا۔ یہی نہیں نئی دلی میں تین مورتی چوک کا نام بدل کر اسرائیل کے دوسرے بڑے شہر حیفہ پر رکھ دیا اور نیتن یاہو کو بولی ووڈ لے گئے اور ممتاز اداکاروں سے ملاقات کرائی۔
اس پزیرائی کا نیتن یاہو پر جادو ہونے کے بجائے خود نریندر مودی پر جادو چھا گیا اور اپنا مشرق وسطیٰ کا تازہ دورہ جب مودی نے فلسطین کے تین گھنٹے کے دورہ سے شروع کیا تو پچھلے ستر سال سے ہندوستان کا فلسطین کے بارے میں جو موقف تھا وہ بدل گیا۔
نہرو سے لے کر من موہن سنگھ تک ہندوستان کا موقف تھا کہ 67 کی جنگ کے بعد ارض فلسطین پر اسرائیل کا غیر قانونی تسلط ہے اور اس دوران فلسطین کی اراضی پر جو یہودی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں وہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔ ہندوستان کا موقف تھا کہ یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ متحدہ اور قابل عمل فلسطینی مملکت قائم ہونی چاہیے۔
فلسطین کے اپنے پہلے ہی دورے میں نریندر مودی نے ہندوستان کا یہ پرانا موقف ترک کردیا اور ایک تقریب میں فلسطینی سربراہ محمود عباس کے سامنے کہا کہ ہندوستان فلسطین کی آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے فلسطین کی متحدہ اور قابل عمل مملکت کا موقف ترک کردیا۔ نریندر مودی نے اسرائیل کے 67 کی سرحدوں پر واپسی کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ یہودی بستیوں کی تعمیر کے خاتمے کی بات کی۔ انہوں نے بے گھر اور بے وطن فلسطینیوں کی اپنے وطن کی سر زمین پر واپسی کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ عملاً نریندر مودی نے اسرائیل فلسطینی تنازع کے حل کے لیے امریکا اور اسرائیل کے تجویز کردہ منصوبے کی حمایت کی۔
فلسطین کے تین گھنٹے کے دورے کے بعد نریندر مودی، متحدہ عرب امارات گئے جہاں دبئی کے اوپرا ہاؤس میں اس مندر کے ماڈل کی نقاب کشائی کی اور سنگ بنیاد کی رسم دیکھی جس کے لیے متحدہ عرب امارات نے بڑے فراغ دلانہ انداز سے ایک وسیع زمین پچھلے دورے میں نریندر مودی کو تحفہ میں دی تھی۔ بہت سے لوگوں کو اس اقدام پر تعجب ہوا اور اس بات پر حیرت ہوئی کہ یہ فراغ دلی ایک ایسے شخص کے ساتھ برتی جارہی ہے جس کے دور میں گجرات میں خونریز فسادات ہوئے اور جس کی جماعت بھارتیا جنتا پار ٹی مسلمانوں سے دشمنی چھپاتی نہیں۔
نریندر مودی کے مشرق وسطیٰ کے اس دورے کا سب سے اہم حصہ عُمان کا دورہ تھا، جہاں سلطان قابوس سے طویل بات چیت کے بعد آٹھ سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔ ان سمجھوتوں کے تحت، ہندوستان کی بحریہ کے جہازوں کو عُمان کی بندرگاہ الدقم میں لنگر انداز ہونے اور خشک گودی کی تمام تر سہولتیں حاصل ہوں گی۔ نہایت فوجی اہمیت کی الدقم کی بندرگاہ پاکستان کی بندرگاہ گوادر کے عین سامنے ہے، صرف 436میل کے فاصلہ پر۔ الدقم کی بندرگاہ کے راستے ہندوستان کی بحریہ کے لیے مشرق وسطی اور مشرقی افریقا میں داخلہ کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہندوستان کی فضائیہ کو بھی الدقم کے ہوائی اڈہ پر تمام سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ یہ ہوائی اڈہ، بمبئی سے صرف چالیس منٹ کی پرواز پر ہے۔ ان سمجھوتوں کے تحت ہندوستان، عُمان کی افواج کو تربیت دے گا اور عُمان میں ہندوستان اسلحہ سازی میں بھی مدد دے گا۔ ان تمام سہولتوں کے عوض ہندوستان نے عُمان کو اپنے تیل کے ذخائر میں شرکت اور معدنیات کی کان کنی میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے۔
دفاعی مبصرین کی رائے میں نئے دفاعی سمجھوتوں کی بدولت عُمان کی الدقم کی بندرگاہ نہ صرف پاکستان کی گوادر کی بندرگاہ کے عین سامنے ہندوستان کے بحری مورچہ کے طور پر ابھرے گی بلکہ اس کا مقصد بحر ہند اور بحیرہ عرب میں چین کے بحری اثر کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔ الدقم کی بندرگاہ سے گوادر کے آس پاس چین کی آبدوزوں پر بھی کڑی نگاہ رکھی جا سکے گی۔ ہندوستان کی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ارون پرکاش کا کہنا ہے کہ چین نے برما سے پاکستان تک سمندر میں ہندوستان کے خلاف پیر جما لیے ہیں جس کے پیش نظر جوابی اقدام لازمی ہے۔
الدقم کے ہوائی اڈہ پر ہندوستان کی فضائیہ کی سہولتوں کے بعد عُمان بحیرہ عرب میں ہندوستان کا ایک مضبوط بحری اور فضائی اڈہ بن جائے گا۔
ہندوستان اور عُمان نے اپنے باہمی دفاعی اشتراک کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ فوجی مشقوں کا سلسلہ بھی شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس سمجھوتے سے ایک روز پہلے ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پہلی بار مشترکہ بحری مشقوں کا اعلان ہوا ہے۔ بلا شبہ عُمان سے دفاعی سمجھوتے اور اسرائیل سے بڑھتا ہوا فوجی تعاون، پاکستان کے خلاف محاصرہ سخت کر کے اسے خود اپنے علاقہ میں تنہا کرنے کے سلسلہ میں ہندوستان کی حکمت عملی کا اہم حصہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکمت عملی کو اسرائیل کا عملی تعاون اور امریکا کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔