چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک نہایت اہم نکتہ اٹھا دیا ہے کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آگیا تو بطور پارٹی سربراہ انہوں نے سینیٹ کے جو ٹکٹس جاری کیے ہیں ان کا کیا بنے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے سلمان اکرم راجا کو بھرپور تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت بھی کی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ آگیا تو ان کے دستخطوں سے جاری کردہ ہر فیصلہ معطل یا کالعدم ہو جانا چاہیے۔ جن لوگوں کو میاں صاحب نے سینیٹ کا ٹکٹ دیا وہ میاں صاحب کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں اور میاں صاحب کا اعتماد اور سرپرستی ان کے لیے ہے۔ اس کا فیصلہ تو محفوظ ہے جو بھی ہوگا اس پر سب کو عمل کرنا ہوگا لیکن اس نکتے پر یہ نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر فیصلہ میاں صاحب کے خلاف آیا تو۔۔۔ یعنی بات اگر پر ہے جبکہ الطاف حسین کو غدار قرار دیا جا چکا حکومت نے قانوناً الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن الطاف حسین کے اعتماد والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز تو ڈیڑھ سال سے اپنی جگہ بیٹھے ہیں۔ یہ سارے لوگ تو وہی ہیں جن کو الطاف حسین نے اسمبلیوں اور سینیٹ میں بھیجا ان کو الطاف حسین کا اعتماد حاصل تھا۔ پتا نہیں ان کی سیٹوں کے لیے دستخط الطاف حسین نے کیے تھے یا نہیں یا پھر ڈاکٹر فاروق ستار کے دستخط سے یہ لوگ رکن بنے تھے لیکن اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ یہ سب لوگ الطاف حسین کے معتمد تھے۔ چیف جسٹس صاحب اس معاملے کی چھان بین بھی کروائیں کہ جو لوگ ملک کے مستند غدار الطاف حسین کے معتمد تھے وہ کیوں کر اسمبلیوں اور سینیٹ کے رکن رہ سکتے ہیں۔ اگر یہ لوگ الطاف حسین کے معتمد ہیں تو پھر ان کی رکنیت کا فیصلہ بھی کیا جانا چاہیے۔ یا پھر الیکشن کمیشن سے اس کا نوٹس لینے کے لیے کہا جائے۔ ایسے لوگ کس طرح عوامی نمائندے رہ سکتے ہیں جنہیں ملک کے ایک غدار نے اسمبلیوں میں نامزد کیا ہے۔