راؤ انوار کی ضمانت!

334

عدالت عظمیٰ نے سرکاری دہشت گرد راؤ انوار کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے جس پر مختلف طبقوں میں حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ انصاف کا حصول ظالم کا بھی حق ہے۔ لیکن کیا اس طرح محترم چیف جسٹس نے راؤ انوار کو خود ہی ظالم قرار نہیں دے دیا؟ محترم چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ شواہد کے بغیر مجرم قرار نہیں دے سکتے۔ بات بالکل صحیح اور قانون کے مطابق ہے۔ لیکن ثبوت و شواہد کے بغیر کسی کو ظالم بھی تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت عظمیٰ نے تمام ایجنسیوں کو راؤ انوار کی گرفتاری سے روک دیا ہے اور ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں آئندہ جمعہ کو پیش ہونے کاحکم دیا ہے۔ راؤ انوار نے چیف جسٹس کے نام خط میں جائے وقوع پر اپنی موجودگی سے انکار کیا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ راؤانوار پاکستان ہی میں اور غالباً اسلام آباد یا اس کے نواح میں ایسی محفوظ جگہ پر ہیں جہاں تمام ایجنسیاں انہیں تلاش کرنے میں ناکام رہیں یا راؤ انوار کے محافظ زیادہ با اثر ہیں۔ عدالتیں انہیں طلب کرتی رہی ہیں، حاضر ہونے کو بھی کہا گیا۔ حکومت سندھ کے وزرا بھی مشورہ دیتے رہے کہ راؤ انوار پیش ہو جائیں۔ عدالتوں سے بھاگنا بجائے خود جرم کا ثبوت ہے خواہ وہ کوئی ہو۔ بہرحال، دیکھنا ہے کہ وہ جمعہ کو عدالت میں پیش ہوتے ہیں یا نہیں اور اپنے اوپر عاید کیے گئے متعدد اور سنگین الزامات کے بارے میں کیا نئی کہانی سناتے ہیں۔ عدالت نے تو راؤ انوار کی فرمائش پر نئی جے آئی ٹی بھی فوری طور پر بنا دی اور راؤ انوار کی یہ درخواست بھی قبول کرلی کہ اس نئی جے آئی ٹی میں سندھ سے کوئی شامل نہیں ہوگا۔ کیا یہ ایک ایسے شخص کے لیے زیادہ مہربانی کا سلوک نہیں ہے جو قانون سے مفرور بھی ہے اور جعلی مقابلوں کے حوالے سے بے شمار گواہیاں بھی موجود ہیں ۔ بہرحال یہ عدالت عظمیٰ کی صوابدید ہے ،اس پر کچھ کہنا توہین عدالت کے مترادف ہوگا لیکن حیرت کا اظہار تو کیا جاسکتا ہے۔ شاید یہ تاثر مناسب نہ ہو کہ عدالت عظمیٰ ایک قاتل سے نرمی کا سلوک کررہی ہے کیوں کہ عدالت کا یہ موقف بجا ہے کہ انصاف کا حصول ظالم کا بھی حق ہے۔ تاہم اس معاملے سے قطع نظر کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جن میں معمولی سی غلطی پر لوگوں کو کڑی سزا بھگتنی پڑی ہے۔ ان معاملات کا تعلق عدالتوں سے نہیں ہوتا کہ معاملات ان تک پہنچتے ہی نہیں اور پولیس اپنے اختیارات استعمال کرجاتی ہے جن کی کوئی پوچھ پرسش نہیں۔ ایک استاد کسی بچے کو تھپڑ مار دے تو اسے کئی ہفتے تک قید میں رکھا جاتا ہے۔ کتنے ہی ملزم ایسے ہیں جن کو آسانی سے ضمانت نہیں ملتی اور وہ رلتے رہتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے معزز چیف جسٹس نے عدالتی نظام سدھارنے کا بیڑا تو اٹھایا ہے جس سے امید ہے کہ کچھ سدھار آجائے گا۔ عدالت عظمیٰ کی طلبی پر راؤ انوار حاضر ہوگئے تو اس میں ان ہی کا فائدہ ہے۔ اس طرح انہیں عدالتی تحفظ بھی مل جائے گا ورنہ ان کی جان خطرے میں تو ہے اور کچھ لوگ ان کے سر کی قیمت لگا چکے ہیں۔ کچھ واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں جن میں کسی مجرم کے انکشافات سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے ساتھیوں ہی نے ٹھکانے لگا دیا۔ راؤ انوار نے جتنے کارنامے سرانجام دیے خبروں کے مطابق ان میں وہ اکیلے نہیں تھے شاید اسی لیے ان کی گرفتاری ممکن نہ ہوسکی۔ محترم چیف جسٹس نے بھی پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی کارکردگی پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ لگتا ہے ہمیں ہی پکڑنا ہوگا‘‘۔ ظاہر ہے کہ ججوں کا یہ کام نہیں اور ان کی پکڑ قانون اور آئین کے تحت ہوتی ہے۔ ایک خبار کی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار کو ایسی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں کہ وہ سامنے آنے پر تیار ہوگئے ہیں، اہم شخصیات کی بھاگ دوڑ نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے۔ راؤ انوار پہلے ہی اپنی حرکتوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر خود کو معصوم قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس مقابلے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے اشارے پر ہوتے تھے۔ سندھ حکومت کے کچھ وزراء بھی راؤ انوار کو بڑا دلیر اور بہادر قرار دے چکے ہیں جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ سندھ حکومت بھی راؤ انوار کی پشت پناہ ہے۔ اور اسے ایسا کرنا بھی چاہیے۔ اس معاملے میں سندھ کے کئی بڑے نام بھی سامنے آرہے ہیں ۔ بہرحال دیکھنا ہے کہ کل جمعہ کو اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔