جواب دہی کی فکر

389

نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہوناہے‘‘۔ میاں نواز شریف نے بہت صحیح بات کی ہے گو کہ اس کی آڑ میں بھی اپنا دکھڑا رویا ہے کہ ’’انہیں کیوں نکالا‘‘۔ چنانچہ اگلے ہی جملے میں فرمایا ہے کہ ’’مخالفین کو صادق و امین اور ملک کی خدمت کرنے والوں کو نا اہل کر کے گھر بھیج دیا‘‘۔ صادق و امین قرار دیے گئے مخالفین سے ان کا اشارہ عمران خان کی طرف ہے۔ میاں صاحب کے دل میں ایک نہیں کئی کانٹے کھٹک رہے ہیں اور روزانہ ہی ان کے لبوں سے یہ آہ بلند ہوتی ہے کہ انہیں کیوں نا اہل قرار دیا گیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ منصفین کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ منصفوں، قاضیوں، ججوں پر بہت بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے کیوں کہ ان کے کسی غلط فیصلے سے متعدد لوگ بلکہ نسلیں تک متاثر ہوتی ہیں۔ اور جو جج صحیح فیصلے کرتے ہیں ان کے لیے اللہ نے بڑا اجر رکھا ہے۔ لیکن اللہ کے سامنے تو سب ہی کو جواب دہ ہونا ہے اور حکمرانوں پر بھی بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ ایسے بھی حکمران گزرے ہیں جن کے سامنے جج بھی بے بس رہے۔ لیکن تاریخ اسلام میں ایسے متعدد جج یا قاضی گزر چکے ہیں جو حکمرانوں کے رعب میں نہیں آئے ، ان کے خلاف فیصلے کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور حکمرانوں نے ایسے فیصلے تسلیم بھی کیے۔ اللہ کے سامنے جواب دہی کا خوف حکمرانوں کو بھی ہونا چاہیے کیوں کہ وہ اپنے اقتدار کی خاطر اپنے اختیار کو بڑی بے دردی سے استعمال کرتے ہیں اور ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کا پہنچایا ہوانقصان ایک جج کے غلط فیصلے سے کہیں زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے اور لاکھوں افراد کی ہلاکت کا سبب کسی جج کا فیصلہ نہیں بلکہ حکمرانوں کی بدکرداری اور اقتدار سے محبت تھا۔ پاکستان میں ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ امریکا کی دھمکی پر پورا پاکستان امریکا کے قدموں میں رکھ دینے کا کارنامہ بھی کسی جج کا نہیں بلکہ ایک آمر حکمران کا تھا۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ ملک کی خدمت کرنے والے کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا لیکن میاں صاحب اپنی خدمات کی فہرست ضرور بتائیں جو انہوں نے عوام کے لیے سر انجام دیں۔ وہ بار بار ایسے منصوبوں کا ذکر کرتے ہیں جو نامکمل بھی رہے اور ان سے ایک عام آدمی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے۔ ان کے تیسرے دور حکومت میں نہ تو بے روزگاروں کو روزگار ملا، نہ تعلیم و صحت کے مسائل حل ہوئے۔ خود میاں نواز شریف اور ان کی اہلیہ بیرون ملک جا کر اپنا علاج کرواتے ہیں ۔ میاں صاحب کے سمدھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی نامعلوم اسپتال میں علاج کروانے کے لیے باہر کے ایک اسپتال میں پڑے ہوئے ہیں ۔ میاں نواز شریف ملک میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنوا سکے جہاں غریبوں کا نہ سہی، حکمرانوں کا معقول علاج ہوسکے اور پاکستان کا زرمبادلہ بچ جائے۔ غریبوں کے لیے جو سرکاری اسپتال ہیں وہاں نہ ڈاکٹر ہیں نہ دوائیں بلکہ مریضوں کے لیے بستر تک نہیں ۔ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی دم توڑ جائے تو عمرؓ سے جواب طلب کیا جائے گا۔ یہ ہے اللہ کے سامنے جواب دہی کا خوف۔یہاں توکتنے ہی مریض دوا، علاج نہ ہونے سے دم توڑ جاتے ہیں ۔ حاملہ خواتین اسپتال کے سامنے بچہ جن دیتی ہیں کہ اسپتال میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ میاں نواز شریف کبھی حساب لگائیں کہ ملک کے کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو اسکول جانے سے محروم ہیں۔ نئی سڑکیں اور رنگ برنگی لائنیں تعمیر کرنا اچھا کام ہے لیکن عام آدمی کی بنیادی ضرورتیں کچھ اور ہیں۔ نواز شریف صاحب ہر خرابی کا الزام عدالت پر لگا دیتے ہیں کہ ان کو نا اہل کرنے سے تمام ترقیاتی کام رک گئے۔ میاں صاحب، آپ کو جولائی 2017ء میں گھر بھیجا گیا اس سے پہلے کیا ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہ رہی تھیں جو اچانک خشک ہوگئیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں ایسا کیا ہوگیا؟ کیا ان کے ہوتے ہوئے پیٹرول، ڈیزل کی قیمتیں ماہانہ بنیاد پر نہیں بڑھ رہی تھیں؟ کیا ان کے دور حکومت میں عوام کی ضرورت کی ہر چیز ان کی قوت خرید سے باہر نہ ہوچکی تھی؟ میاں صاحب کو شاید یاد نہ رہا ہو کہ 2013ء کے انتخابات میں وہ نعرے لگاتے اور اخبارات میں اشتہارات شائع کرواتے تھے کہ اشیا ضرورت کی قیمتیں 1999ء کی سطح پر لائیں گے جب ان کو ایک آمر پرویز مشرف نے برطرف کیا تھا۔ میاں نواز شریف ذرا ایمانداری سے بتائیں کہ وہ کس شے کی قیمت واپس 1999ء کی سطح پر واپس لائے۔ کیا انہیں اللہ کے سامنے جواب دہی کا خوف نہیں ہے؟ البتہ انہیں یہ یاد رہا کہ انہوں نے بھارت سے دوستی کے مینڈیٹ پر الیکشن جیتا ہے۔ اگر لودھراں میں ن لیگ کی کامیابی اللہ کی رضا اور فیصلہ ہے تو یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ ان کو نا اہل قرار دینا اور وزارت عظمیٰ سے محروم کرنا بھی اللہ کی رضااور فیصلہ ہے۔ میاں نواز شریف اٹھتے بیٹھتے عدالتوں اور ججوں کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالنے کے بجائے اللہ کے سامنے جواب دہی کی تیاری کریں۔میاں صاحب کو یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ اب ان کے ہاتھ سے حکمران جماعت کی سربراہی بھی چھین لی جائے گی۔عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیا کوئی چور، ڈاکو بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے؟ ہاں! اگر چوروں کی پارٹی ہو تو۔