کراچی(اسٹاف رپورٹر) تاریخی اسلامیہ کالج کو خالی کرانے کے حکم پر طلباء مشتعل ہوگئے اور پولیس پر پتھراؤشروع کردیا۔تفصیلات کے مطابق محکمہ کالج ایجوکیشن کے تحت قائم اسلامیہ کالج عدالتی حکم پر عمل درآمد کرانے کے لیے جب پولیس وہاں پہنچی تو حالات کشیدہ ہوگئے اور طلباء نے احتجاج شروع کردیا اور پولیس کوآگے بڑھنے سے روکنے کے لیے پتھراو بھی کیا۔
اس موقع پر مشتعل طلباء نے پولیس کے خلاف نعرے بازی بھی کی اور ٹائر جلا کر سڑک کو بلاک کردیا، جس کے باعث ٹریفک کی روانی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔تاہم کشیدہ صورتحال کے پیش نظر پولیس نے بھاری نفری اور واٹر کینن بھی طلب کرلی جبکہ رینجرز کی بھاری نفری کو بھی اسلامیہ کالج کے اطراف تعینات کیا گیا۔
کئی دہائیوں سے قائم گورنمنٹ اسلامیہ کالج کو خالی کرائے جانے کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور عدالت نے کالج کی عمارت خالی کرا کے 19 فروری کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے رکھا ہے۔عدالتی حکم پر ناظر کالج کو خالی کرانے کا نوٹس لگانے پہنچے تو طلبہ سراپا احتجاج بن گئے اورعدالتی ناظر کو نوٹس لگائے بغیر واپس جانا پڑا۔
طلباء کے احتجاج کے باعث نیو ایم اے جناح روڈ ٹریفک کے لیے بند ہو گئی۔ اس موقع پر حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اور مذاکرات کے بعد طلبا ء نے اپنا احتجاج ختم کیا اور پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔احتجاجی طلباء کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو اپنے مستقبل سے کھیلنے نہیں دیں گے اور ہر صورت کالج کو کھلا رکھیں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں کراچی کی مقامی عدالت نے اسلامیہ کالج کو خالی کرا کر اسلامک ایجوکیش ٹرسٹ کو دینے کا حکم دیا تھا۔اسلامک ایجوکیشن ٹرسٹ نے موقف اختیار کیا تھا کہ نیشنالائزیشن کے بعد سے کالج کا کرایہ ادا نہیں کیا گیا ،
جس کی بنیاد پر یہ جگہ انہیں واپس کی جائے۔بعد ازاں اسلامیہ کالج بچاؤ کمیٹی کے کنونئیر کی جانب سے صدر مملکت ممنون حسین سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اس تاریخی کالج کو خالی کرانے کا نوٹس لیں اور طلباء کو بے دخل ہونے سے بچائیں۔واضح رہے کہ اسلامیہ کالج کا شمار پاکستان کے قدیم تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے اور اسے 1972 میں مارشل لاء قواعد و ضوابط کے تحت نیشنالائز کیا گیا تھا
اور اس کے بعد سے اس کا سارا انتظام سندھ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ دیکھ رہا تھا۔یاد رہے کہ نیو ایم اے جناح روڈ پر قائم اس 3 منزلہ کالج کو نیشنلائز کرنے سے قبل اس کا نظام اسلامک ایجوکیشن ٹرسٹ کی انتظامیہ دیکھتی تھی۔