***۔۔۔۔۔۔ راولپنڈی ۔۔۔۔۔۔***

199

راولپنڈی (بی این پی )محکمہ صحت پنجاب نے ادویات کی خودکار تقسیم کی مشین متعارف کرا دی جو تنظیم نو کے تحت ڈسٹرکٹ و تحصیل اسپتالوں کو فراہم کی جا ئیگی خود کار مشین کے ذریعے ادویات کی فراہمی میں سہولت ہو گی**محکمہ تعلیم سکولز نے مانیٹرنگ سیل کے سکولوں پر چھاپوں کی ڈیلی الرٹ موبائل سروس رپورٹ شروع کر دی ۔رخصت پر جانے والے اساتذہ و معلمات کو کم حاضری میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس پر سکولوں کی انتظامیہ پریشانی کا شکار ہے۔ 12 فروری کو مانیٹرنگ رپورٹس کے مطابق 15 سکولز میں اساتذہ کی حاضری کم رہی۔ماہرین تعلیم کے مطابق ہر تعلیمی ادارے میں ایک یا دو ٹیچر رخصت پر تو ہوتے ہیں مگر اسے ناقص کارکردگی کہنا غلط ہے** سرکاری سکولوں کیلیے نئے انرولمنٹ ٹارگٹ مقرر کردئیے گئے ۔ بی این پی ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام اضلاع کے سی ای او ز کو نئے ٹارگٹ بھجوادئیے گئے ہیں۔جنہیں اب سکولوں کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا۔یکم مارچ سے نیا تعلیمی سال شروع ہونے پر ٹارگٹ پورے کئے جائیں گے**سکول سربراہان اور سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ کی ترقی نویں اور گیارہویں جماعت کے نتائج سے مشروط کرنے پر اساتذہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے احتجاج کیا۔تفصیل کے مطابق گریڈ 16 سے 18 کے اساتذہ کو خراب نتائج دینے پر ترقیاں نہیں ملیں گی۔ ماڈل ٹاؤن میں پنجاب ایسوسی ایشن آف سبجیکٹ سپیشلسٹ کے زیر اہتمام اساتذہ نے احتجاج کیا۔اساتذہ کا کہنا تھا کہ ترقیاں نتائج سے مشروط ہونے سے گریڈ18 سے 19 میں ترقی پانے والے سینکڑوں اساتذہ کی ترقیاں روکنا نا انصافی ہے۔انکا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بغیر اساتذہ کو ترقیاں دینے کا 40 سال پرانا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا ،گریڈ 19 کے درجنوں اساتذہ کو نئی پالیسی کے تحت گریڈ 18 میں واپس بھیج دیا گیا جبکہ گریڈ 20 میں ترقیوں کیلیے بنایا گیا سلیکشن بورڈ بھی 5 سال سے التوا کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نیا فارمولا واپس نہ لیا گیا اور 2 لاکھ عارضی اساتذہ کو فی الفور مستقل نہ کیا گیا تو پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاجی دھرنا دینگے **بی این پی کو وزارت ریلوے کے معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ نے لاہور ڈویڑن میں ریلوے ٹریک میکانکی مینٹی نینس کے پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد ریلویز کے پورے نظام کو میکانکی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس سے اثاثوں کو محفوظ کیاجائے گا اور ریلوے کی کارکردگی کو مزید فعال بنایاجائے گا۔ میکانکی نظام کو ریلویز میں لانے سے افرادی قوت میں بھی کمی آئے گی اور ملک بھر کے ریلوے ٹریک بہتر ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں گذشتہ مالی سال کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی مکمل ہونے کے بعد اب ملک کی مین ریلوے لائن (ایم ایل ون) پر بھی تعمیرو مرمت کا منصوبہ شروع کردیا گیا ہے جبکہ ایم ایل ٹو اور ایم ایل تھری کی اپ گریڈیشن کی بھی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے جسے بیرونی سرمایہ کاری کیلیے جائنٹ ونچر یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایم ایل ٹو کی فزیبلٹی سٹڈی مکمل ہوچکی ہے اور ایم ایل تھری کی سٹڈی پر بہت جلد کام شروع کر دیا جائے گا۔ پاکستان ریلویز نے علاقائی رابطوں کو دوسرے ممالک تک بڑھانے کیلیے چین، افغانستان ،ایران، ترکمانستان اور دوسرے وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ رابطوں کی اس بحالی کے مختلف منصوبوں کی بھی حکمت عملی بنالی ہے۔ ریلوے ذرائع کے مطابق ملکی ریلوے ٹریک کے میکانکی پائلٹ منصوبے سے ریل ٹریک کی مینٹی نینس کا عمل سہل ہو جائے گا اور نتیجے میں مسافروں کو جدید،آرام دہ سفر ی سہولت میسر آئے گی**تجزیہ بی این پی کے مطابق لودھراں میں ہونے والا ضمنی انتخاب مسلم لیگ ن کے لیے مسرت‘ تحریک انصاف کے لیے مایوسی مگر پی پی پی کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ پی پی پی جو ملتان میں ایک جلسہ کرنے کے بعد ایک بار پھر توقع کر رہی تھی کہ جنوبی پنجاب میں پی پی پی کی بحالی کا آغاز ہو گیا ہے ان کی توقع کے پورا ہونے کا ذرا سا شائبہ بھی لودھراں کے الیکشن میں نظر نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر جو تبصرے ہو رہے ہیں ان میں سب سے زیادہ وائرل یہ تبصرہ تھا کہ ’’تحریک لبیک نے پی پی پی کو پچھاڑ دیا‘‘۔ پی پی پی کے لیے یہ صورتحال لمحہ فکریہ ہے۔ پی پی پی کے ایک ذریعے سے پی پی پی کی لودھراں کے الیکشن میں بہت ہی بری کارکردگی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی نے امیدوار کا چناؤ درست نہیں کیا‘ ایسے امیدوار کو ٹکٹ دے دیا گیا جو پارٹی کو چھوڑ کر گئے تھے اپنی پارٹی سے علیحدگی کے بعد پی پی پی کی قیادت پر شدید نکتہ چینی کرتے رہے۔ ضمنی الیکشن کا موقع پیدا ہونے پر واپس پارٹی میں آئے تاہم پی پی پی کا ورکر ان کو ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں نکلا۔ دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے امیدوار باثروت تھے اور پیسہ لگانے کی پوزیشن میں تھے۔ پی پی پی کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پی پی پی کی شکست کی حقیقی وجوہات جاننے کے لیے پارٹی کو کمیٹی بنانا چاہئے۔ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن اور خاص طورپر تحریک انصاف کی سرگرمیاں سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے سامنے آتی رہی تاہم پی پی پی قیادت میں سے کوئی نمایاں شخصیت لودھراں جاتی نظر نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی پی پی تاحال اپنے ناراض ورکرز کو راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔