غزالہ عزیز
ایم کیو ایم کے رہنما ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ یہ بات تو سمجھ میں آرہی ہے کہ ناراضی سینیٹ کی نشستوں پر ہے۔ ٹی وی چینل دن رات ڈھول پیٹ کر یہ بھی بتارہے ہیں کہ اصل اختلاف ’’ٹیسوری‘‘ پر ہے۔ لیکن نسرین جلیل اور فاروق ستار میڈیا کے سامنے جب اپنے اپنے امیدواروں کی فہرست پیش کرتے ہیں تو کوئی ایک نام بھی دونوں میں مشترکہ نہیں ہوتا۔ جو صرف ’’کامران ٹیسوری‘‘ پر اختلاف کی نفی کرتا ہے۔ یوں تو ایم کیو ایم نے اپنی سیاست کی ابتدا کراچی سے کی لیکن جوڑ توڑ اور سیاسی ہتھکنڈوں کے باعث پورے ملک کی سیاست پر اس کے اثرات رہے۔ یہ کوئی پانچ دس برس کی بات نہیں تین عشروں کا قصہ ہے۔ لیکن اب یوں لگتا ہے کہ معاملات سب ہی کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم میں سب ہی سینیٹ کے الیکشن پر ایک دوسرے سے روٹھے ہیں۔ یہاں بھلا کون ہے جو جاوید ہاشمی کی طرح ایک زمانے میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کو نیک فال سمجھ کر کہے اچھا ہے کہ اب میری پانی بھرن سے جان چھوٹی…. کہ اچھا ہوا میری گھگری پھوٹی میں پنبا بھرن سے چھوٹی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم رہنما فروغ نسیم نے یہ کیوں کہا کہ ’’پرویز اچھے انسان ہیں لیکن وہ میرے سیاسی لیڈر نہیں‘‘ ایم کیو ایم کے ایک اور ذمے دار لندن سے اظہار خیال کررہے ہیں کہ پرویز مشرف سیاست کے میدان میں تمام تر کوششوں میں ناکامی کے بعد ایم کیو ایم پر قبضہ کا مضحکہ خیز خواب دیکھ رہے ہیں جو کبھی پورا نہیں ہوگا۔ یعنی پاکستان اور لندن ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کا رہنماؤں نے پرویز مشرف کو مسترد کردیا ہے۔ اگرچہ یہ ہی ایم کیو ایم تھی جس نے پرویز مشرف کا ہر پلیٹ فارم پر ساتھ دیا، الطاف حسین اپنی تقریروں میں پرویز مشرف کا دم بھرتے نہ تھکتے تھے اور پرویز مشرف بھی مکے لہرا لہرا کر کراچی میں اپنی طاقت کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن اب ایم کیو ایم سیاست کے میدان میں انہیں اپنا کندھا فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خود ان کی واپس آ کر سیاست میں حصہ لینے کی خواہش تو ہے لیکن ہمت نہیں۔ ارادے باندھتے ہیں توڑ دیتے ہیں۔ ابھی جنوری کی ابتدا میں ان کے وکیل نے اعلان کیا کہ پرویز مشرف واپسی کے لیے رخت سفر باندھ رہے ہیں، لیکن یہ رخت سفر قانونی مشاورت تک محدود رہا۔ کیوں کہ عدالت جاتے ہوئے ان کو کمر کا درد لے بیٹھتا ہے۔ لیکن ان ہی کو نہیں یہاں تو شاہ زیب جتوئی سے لے کر ڈاکٹر عاصم تک سب ہی کمر درد کے ہاتھوں عدالت سے فراغت اور جیلوں سے فرار حاصل کرلیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ اقتدار کا نشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک بار چڑھے تو جان و دل دونوں کو لیلائے اقتدار کی یادوں میں مست رکھتا ہے۔ لہٰذا انتخابات قریب آتے ہی ملک سے باہر بیٹھے پرویز مشرف نہایت باریک بینی سے اپنے اتحادیوں کو تلاش کررہے ہیں، وہ بھی دور بین لے کر۔ پہلے انہوں نے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے انضمام سے اُمیدیں وابستہ کیں لیکن وہ تو ایسی ہنڈیا تھی جو چولہے پر چڑھتے ہی اُلٹ گئی۔ پھر انہوں نے اپنی دور بین سے ڈیڑھ درجن سیاسی اور مذہبی جماعتیں تلاش کیں اور ان کے اتحاد کے سربراہ بن بیٹھے۔ لیکن وہ اتحاد چند دن نہ چل پایا۔ آگے دیکھیے انہیں کیا سوجھتا ہے یا سمجھایا جاتا ہے۔ فی الحال وہ ملکی حالات پر خون کے آنسو بہارہے ہیں اور تیسری قوت کی تلاش میں ہیں۔ دیکھیں انہیں یہ قوت دستیاب ہوپاتی ہے یا نہیں؟؟۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سارا میڈیا ایم کیو ایم کے دھڑوں اور ان کے رہنماؤں کی پل پل کی خبریں نشر کررہا ہے، تعصب کے بیج سے پھیلنے والی امربیل کی تقسیم در تقسیم کی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر ہر گھنٹے میں کچھ نئی ہوتی ہیں۔ لیکن پتا نہیں کیوں یہ بھی سمجھا جارہا ہے کہ یہ بیل خواہ کتنی ہی تقسیم ہو آخر کاراکٹھی ہو ہی جائے گی۔ کیوں کہ کچھ تو ہے ’’خاص‘‘ اس جماعت میں کہ اسے سات خون نہیں بلکہ ہزاروں خون معاف ہوجاتے ہیں۔ میڈیا سب کچھ جانتے بوجھتے انجان بننے کی اداکاری کرتا ہے۔ بتائیے تو کہ کیا یہ میڈیا نہیں تھا کہ اس جماعت کے ابتدائی زمانے سے لے کر آج تیس سال تک کراچی میں جلاؤ گھیراؤ فائرنگ ہڑتالیں یہاں تک کے کرفیو زدہ فالج کا شکار مریض بنانے میں میڈیا کو کہیں کسی واقعہ میں ایم کیو ایم کا قصور نظر نہ آتا تھا۔ یہ جماعت تھی جس کے لیڈر علی الاعلان پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتے، جھنڈے جلاتے، بھارت سے ملک توڑنے کی اپیلیں کرتے، مدد مانگتے اور مہاجروں کو بھارتی شہریت دینے کی درخواست کرتے تھے۔ لیکن میڈیا ان کی کسی بات پر کوئی سوال نہیں اُٹھاتا تھا۔ قانون عدالت سب منہ میں گھنگنیاں ڈالے کانوں پر ٹیپ لگائے سوتا تھا اور یہاں تک کہ ڈھائی تین سو معصوموں کو زندہ جلانے والے بلدیہ ٹاؤن کے واقعے پر بھی کچھ نہ بگڑا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو جس قدر بھی کامیابی حاصل ہوئی اس میں زیادہ ہاتھ پریس کا ہے۔ اخبارات اور چینلوں پر مکمل کنٹرول کا ہتھیار اُسے کامیابی دلاتا چلا گیا۔ آج بھی اس کے حلف یافتہ کارکنان بلدیہ، واٹر بورڈ اور کے ڈی اے جیسے اداروں میں بیٹھ کر ان کی جڑیں کھود رہے ہیں۔ اخبارات اور چینلوں نے بھی سوال نہیں اُٹھایا کہ متوسط طبقے اور غریب علاقوں میں رہنے والے رہنما بغیر کسی کام کاج کے کروڑ پتی اور ارب پتی کیسے بن گئے؟؟ انہوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک کروڑوں اور اربوں کی جائدادیں کیسے حاصل کرلیں؟؟۔
میڈیا کی معصومیت کا یہ عالم ہے کہ کروڑ پتی، ارب پتی بن جانے کے باوجود یہ اب بھی انہیں متوسط اور غریب علاقوں کی قیادت قرار دیتا ہے۔ کبھی میڈیا نے یہ نہیں بتایا کہ پہلے سے کراچی حیدر آباد اندرون سندھ سے متوسط طبقے کے امیدوار کھڑے ہوتے اور منتخب ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نذیر شہید، مولانا جان محمد عباسی، محمود اعظم فاروقی، پروفیسر غفور احمد ، اسد اللہ بھٹو، نعمت اللہ خان متوسط طبقے سے منتخب ہوئے لیکن کبھی میڈیاکو اُن کی یاد نہیں آتی۔ میڈیا کبھی نہیں بتاتا کہ عبدالستار افغانی میئر بنے تو 60 گز کے گھر میں رہائش تھی دو دفعہ میئر منتخب ہونے کے بعد بھی وہیں رہے۔ اور وہیں سے اُن کا جنازہ اُٹھا۔ نعمت اللہ خان اپنے دفتر سے آخری دن نکلتے ہیں تو میئر ہونے کی حیثیت سے ملنے والی ساری تنخواہ کا چیک کاٹ کر صدقہ کردیتے ہیں ا ور کپڑے جھاڑ کر گھر چلے جاتے ہیں۔
یہ میڈیا کی کراچی شہر اور مہاجروں سے دشمنی ہے اگر وہ خون چوسنے والی امربیل بلکہ عفریت کراچی پر مسلط نہ کرتے تو کراچی ترقی کی کس بلندی پر ہوتا؟۔ اب تو عروس البلاد کراچی ’’کچراچی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جس کی کراچی کو اون کرنے والوں کو کوئی فکر نہیں!!!۔یہ میڈیا کی شہر کراچی اور مہاجروں سے دشمنی ہے وہ اہل کراچی پر اگر اس امربیل بلکہ خون چوسنے والے عفریت کو مسلط نہ کرتے تو آج کراچی ترقی کی کس بلندی پر ہوتا؟ لیکن یہ سوال میڈیا میں نہ اُٹھایا گیا نہ اُٹھایا جاتا ہے کیوں کہ کراچی کو ’’کچراچی‘‘ میں بدلنے والوں کو اُس کی پروا نہیں۔ اور میڈیا کو صرف یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ ایم کیو ایم کتنے حصوں میں ٹوٹے گی؟؟ سو بریکنگ نیوز زندہ باد۔