مفتی منیب الرحمن
خبر کو عربی میں ’’نَبَأٌ‘‘ بھی کہتے ہیں، اس کی جمع ’’اَلْاَنْبَاء‘‘ ہے اور اسی سے ’’نَبِیٌّ‘‘ ہے، جس کے معنی ہیں: ’’غیب کی خبر دینے والا‘‘۔ حدیث کے لیے بھی خبر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جیسے خبرِ واحد وغیرہ، بعض محدثین راوی کے کلمات ’’حَدَّثَنَا‘‘ اور ’’اَخْبَرَنَا‘‘ میں معنوی فرق بھی کرتے ہیں۔ عربی عِلمُ النَّحو میں جملہ اسمیہ دو اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے: مبتدا اور خبر، اسی کو مُسنَد اِلَیہ اور مُسنَد بہٖ بھی کہتے ہیں اور علمِ منطق میں جملے کے دو اجزاء کو موضوع اور محمول کہتے ہیں، خبر کے معروف معنی سب کو معلوم ہیں۔ علم المعانی میں بتایا جاتا ہے: ’’خبر وہ ہے جو صدق اورکذب کا احتمال رکھتی ہے‘‘، یعنی سچی بھی ہوسکتی ہے اور جھوٹی بھی، یعنی اگر وہ واقعہ کے مطابق ہے تو سچی ہے اور اگر واقعہ کے خلاف ہے تو جھوٹی ہے، الغرض نشر کرنے سے پہلے خبر کی تحقیق ضروری ہے۔ علم الکلام کے بعض ائمہ نے حق اور صدق میں فرق کیا ہے کہ حق وہ ہے کہ واقعہ اس کا محتاج ہوتا ہے، پس اللہ کا کلام حق ہے، لہٰذا واقعہ اس کے برعکس ہو ہی نہیں سکتا اور صدق اپنے ثابت ہونے کے لیے واقعہ کا محتاج ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (غیر مستند شخص) کوئی خبر لے کر آئے، تو (ردِّعمل سے پہلے) تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچاؤ، پھر تمہیں اپنے کیے پر شرمسار ہونا پڑے، (الحجرات: 6)‘‘۔ یہی تعلیم رسول اللہ ؐ نے دی ہے، فرمایا: ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرتا پھرے، (مسلم)‘‘۔
مدینۂ منورہ میں دشمنانِ دین اور منافقین کا ایک شِعار یہ بھی تھا کہ وہ جھوٹی خبریں پھیلاتے تھے تاکہ مسلمانوں میں سنسنی پھیل جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور وہ جو مدینہ میں جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں، اگر باز نہ آئے تو ہم آپ کو ضرور اُن پر مسلّط فرمادیں گے، پھر وہ اُس میں آپ کے نزدیک زیادہ عرصے نہیں رہ پائیں گے، وہ لعنتی ہیں، جہاں کہیں ملیں، پکڑے جائیں اور انہیں چُن چن کر قتل کیا جائے، پچھلی امتوں میں اللہ کا دستور یہی رہا ہے اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے، (الاحزاب: 60-62)‘‘۔ قرآنِ کریم نے جس چیز کو ’’اِرجاف‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، اسی کو آج کل Disinformation کہا جاتا ہے، ایسی خبریں پھیلانے کا مقصد معاشرے میں سنسنی پھیلانا، کسی کو بدنام کرنا یا ملک میں عدمِ استحکام پیدا کرنا ہوتا ہے، منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کا نقصان یا مابعد اثرات کتنے سنگین ہوں گے۔
صحیح بخاری میں بنی اسرائیل کے ایک عابد وزاہد شخص جُریج کا ذکر ہے جنہوں نے بستی سے باہر ایک گرجا بنایا، وہ اس میں ہمیشہ مصروفِ عبادت رہتے تھے، ایک فاحشہ عورت نے انہیں اپنی طرف مائل کرنا چاہا، مگر وہ اس کے فریب میں نہ آئے۔ پھر اُس عورت نے ایک ناجائز بچہ جنا اور اسے جریج کی طرف منسوب کردیا، قوم نے حقیقت معلوم کیے بغیر ان پر یلغار کردی، ان کا گرجا ڈھا دیا اور اُنہیں لہولہان کردیا، وہ ہوش میں آئے تو قوم سے پوچھا: تم نے مجھے کس جرم کی سزا دی ہے؟، انہوں نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ پھر انہوں نے دو رکعت نماز نفل پڑھی، اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور درخت کی ایک شاخ سے اُس نومولود بچے کو ٹہوکا دیا اور پوچھا: ’’تمہارا باپ کون ہے، اُس نے ایک چرواہے کی طرف اشارہ کیا۔ قوم اپنے کیے پر شرمسار ہوئی اور جریج سے کہا: ہم تمہیں سونے کا گرجا بنائے دیتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، ظاہر ہے انہیں جو تکلیف پہنچائی جاچکی تھی، اُس کا ازالہ نہیں ہوسکتا تھا، اُن کی اس ابتلا کا سبب بھی حدیث میں مذکور ہے، لیکن وہ یہاں موضوعِ بحث نہیں ہے، یہ روایات کا خلاصہ ہے۔
آج کل ہم کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا میں ناظرین کو اپنی جانب مائل کرنے کی غیر تعمیری مسابقت نے دینی ومعاشرتی اقدار، اخلاقی معیار اور پیشہ ورانہ تقاضوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ یہ ادارے اور ان میں کام کرنے والے افراد تمام قانونی حدود وقیود سے آزاد ہیں، اُن پر نگرانی اور مواخذے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ میڈیا بے انتہا طاقتور ہوگیا ہے، اُس کے پاس سیاست دانوں اور دیگر طبقات کو بلیک میل کرنے اور دباؤ میں رکھنے کا مؤثر ہتھیار ہے۔ ہمارے ہاں دیگر قوانین کی طرح ازالۂ حیثیتِ عُرفی کا قانون بے اثر اور ضابطۂ قانون فرسودہ ہے۔ ماتحت عدالتیں خود دباؤ میں رہتی ہیں، عدالت عظمیٰ آخر کتنے معاملات میں براہِ راست مداخلت کرے گی۔ لیکن سرِ دست ایک اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کا معاملہ عدالت عظمیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے، جے آئی ٹی بھی بنالی ہے، پوری قوم کو امید رکھنی چاہیے کہ اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا تاکہ آئندہ کے لیے ایک عبرت ناک مثال قائم ہو جائے، ہوسکتا ہے کچھ ضوابط بھی وضع ہوجائیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے24جنوری کو اپنے پروگرام میں دو مرتبہ کہا: ’’میں جو بات کہہ رہا ہوں، انتہائی ذمے داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں‘‘، بعد میں عدالت عظمیٰ میں پیشی کے بعد 28جنوری کے پروگرام میں انہوں نے کہا: ’’ایک خبر ہوتی ہے، ایک اطلاع ہوتی ہے، میں نے اطلاع دی ہے‘‘۔ حالاں کہ کاروباری اداروں، ہوٹلوں اور دفاتر وغیرہ میں ’’اطلاعات کا ڈیسک‘‘ گمراہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ صحیح معلومات دینے کے لیے ہوتا ہے، یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے: ’’فلاں دن فلاں کی شادی ہے یا فلاں وقت فلاں کا جنازہ ہے، میں اطلاع دے رہا ہوں، آپ خود تحقیق کرلیں‘‘۔ عام طور پر غیبی خبریں سنانے والوں کی کوئی ہاٹ لائن ہوتی ہے اور کوئی غیر مرئی حفاظتی حصار بھی ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات یہ لائن کٹ بھی جاتی ہے، دیکھتے ہیں یہاں کیا ہوتا ہے۔ میڈیا پرسنز کی گفتگو سے لگتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب مشکل میں پھنس گئے ہیں، صرف مظہر عباس صاحب نے کہا: ’’مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس کوئی معلومات ہیں‘‘۔ دوسری طرف ڈاکٹر صاحب نے جناب چیف جسٹس کی وعید کے باوجود معافی نہیں مانگی، وہ منظر پر موجود ہیں، جے آئی ٹی بھی بن گئی ہے، جناب چیف جسٹس نے محمد امین انصاری صاحب اور ان کے وکیل کو میڈیا سے گفتگوسے منع کیا ہے، مجھے اس جے آئی ٹی کا انداز پاناما جے آئی ٹی سے مشابہ نظر آتا ہے۔
چائلڈ پورنوگرافی بچوں کے بارے میں فُحش فلمیں بنانے کو کہتے ہیں، جو تکنیکی اعتبار سے انتہائی اعلیٰ اور عالمی معیار کی ہوتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ بعض یورپین ممالک میں اس کی مارکیٹ ہے، بفرضِ محال یہاں اگر کوئی ایسی چیز ہے تو پوش آبادیوں کے ساؤنڈ پروف بڑے بنگلوں کے تہ خانوں میں ایسا ہونا عقلاً ممکن توہے، لیکن فی الواقع ایسا ہونا ہمارے علم میں نہیں ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وطنِ عزیز کو ہمیشہ ایسی لعنتوں سے محفوظ فرمائے۔ کوڑے کے ڈھیروں، گنے کے کھیتوں، میدانوں اور ریگستانوں اور کچے مکانوں میں اس طرح کی فلمیں بنائے جانے اور عالمی مارکیٹ میں بیچنے کے دعووں کا جہاں تک تعلق ہے، ہوسکتا ہے کہ بعض خبیث الفطرت، کمینہ خصلت اور رذیل لوگ بلیک میلنگ یا شیطانی حَظّ اٹھانے کے لیے ایسے کام کرتے ہوں، یعنی یہ عقلاً محال تو نہیں ہے، لیکن اس کا شیطنت کی عالمی مارکیٹ کے معیار پر پورا اترنا ناقابلِ یقین ہے، بظاہر اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ اس لیے اس طرح کی چیزوں کو تحقیق کے بغیر نشر یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ ’’جرائم کی تشہیر‘‘ کے عنوان سے ہم نے اپنے کالم میں ان کے خطرات کی جانب متوجہ کیا ہے اور ان واقعات کی تشہیر کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں تسلسل کے ساتھ واقعات رونما ہورہے ہیں،
کیوں کہ آج کل الیکٹرونک اور سوشل میڈیا تک رسائی ہر ایک کے لیے آسان ہوگئی ہے، نوخیز ذہن ان چیزوں سے پراگندہ ہوتے ہیں، جذبات مشتعل ہوتے ہیں، اخلاقی تربیت اور دینی شعور کے فُقدان کے سبب اُن کے بہکنے اور بھٹکنے کے احتمالات نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ جناب جسٹس ثاقب نثارسے گزارش ہے کہ اس کے بارے میں کوئی دو ٹوک حکم صادر فرمائیں، ہوسکتا ہے یہ آخرت میں اُن کی نجات کا باعث بن جائے۔ جناب محمد امین انصاری اور اُن جیسے متاثرہ خاندانوں کا درد ہر وہ شخص محسوس کرتا ہے جس کے سینے میں دل ہے، تاہم اُن سے گزارش ہے کہ صبر کا دامن تھامے رہیں، تشہیر سے گریز کریں، میڈیا کاروباری مسابقت کے جنون میں بڑا بے رحم ہوگیا ہے، اسلام نے صرف مظلوم کو طلبِ انصاف کے لیے اپنے اوپر کیے گئے ظلم کے اظہار کی اجازت دی ہے، قرآن کریم میں ہے: ’’اللہ برائی کا عَلانیہ ذکر پسند نہیں فرماتا، ماسوا مظلوم کے، (النساء: 148)‘‘۔
میں ایک عرصے سے متنبّہ کر رہا ہوں کہ دینی مجالس اور محافلِ نعت پر آرٹسٹوں اور شہرت کے دلدادہ اُن کے مربّیوں کا غلبہ ہوگیا ہے، اب پیشہ ور نقیبانِ محفل، ان کے پروموٹرز اور منتظمین کے بارے میں یوکے اور پاکستان سے اندوہناک خبریں آرہی ہیں، قصور کے عادی مجرم عمران علی کا وزیٹنگ کارڈ بطورِ نقیبِ محفل سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، اسی پاکیزہ عنوان سے ان لوگوں کی گھروں تک رسائی ہوجاتی ہے اور پھر وہ ناپختہ بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی یہ خبر درست ہے تو پھر دینی پروگراموں کی نقابت کے لیے تعلیم وتربیت اور پاکیزگئ کردار کا کوئی معیار ہونا چاہیے۔ یہ طبقہ بیسویں صدی کے آخر میں اچانک وجود میں آیا ہے اور پھر رنگین لباس اور فنکارانہ وضع کے ساتھ نقابت نے ایک پیشے کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہ مجالس روحانیت کی تقدیس سے عاری ہوکر ذہنی سرورکا باعث بن گئیں۔ جعلی پیر، واعظ، نعت خواں، نقیب محفل، شہرت پسند نودولتیے اور ایکو ساؤنڈ سسٹم پر مشتمل ہمنواؤں کے دستے تشکیل پائے، جن کی فیس لاکھ سے شروع ہوتی ہے۔ ہماری کتاب ’’اصلاحِ عقائد واعمال‘‘ پر اسی طبقے کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچی ہے۔ الحمد للہ! تین ماہ میں ’’اصلاحِ عقائد واعمال‘‘ دس ہزار کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے۔ نوٹ: یہ کالم پیر کی صبح کو لکھا گیا۔