ہسپتال جیسا آرام جیل میں کہاں؟

279

جسارت کے ایک منتظم اعلیٰ مرحوم معظم علی قادری بڑی باغ و بہار شخصیت تھے، بے انتہا انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے، بڑے بڑے فیصلے لمحوں میں کرتے اور بڑے آرام سے ان کا نفاذ کرتے۔ دراصل معظم صاحب یوں یاد آگئے کہ چیف جسٹس صاحب میاں ثاقب نثار نے کراچی جیل سے کرپشن، لوٹ مار اور غبن کے الزام میں قید سابق وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کو جیل سے ہسپتال پہنچانے اور مستقل ان کے وہیں قیام پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور فوری طور پر انہیں واپس بھیجنے کا حکم دیا۔ صرف شرجیل میمن نہیں بلکہ شاہ رخ جتوئی، انعام اکبر، علی رضا اور فدا حِنون سمیت تمام قیدیوں کو ہسپتال سے واپس جیل بھیج دیا گیا۔ شاہ رخ جتوئی کو قانون کے مطابق کال کوٹھڑی میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ بھی ہسپتال میں وی آئی پی مزے لے رہا تھا۔ یہی حکم معظم علی قادری کی یاد دلانے کا سبب بنا۔ ایک روز وہ دفتر میں بیٹھے تھے ایک انتظامی افسر تاخیر سے دفتر پہنچے، سوچا واپس چلے جائیں۔ لیکن تنخواہ کٹنے کا خطرہ تھا لہٰذا سیدھے معظم صاحب کے کمرے میں گئے اور پرانا بہانہ کردیا۔ وہ آج طبیعت خراب تھی میں تو چھٹی کر رہا تھا۔ والدہ نے کہا کہ نہیں بیٹا دفتر جاؤ اس لیے دیر ہوگئی۔ معظم صاحب نے کہا کہ اچھا کیا آگئے۔ دفتر جیسا آرام گھر میں کہاں۔ وہاں تو بیگم کا بھی خیال رکھنا پڑتا اور اماں کا بھی۔ یہاں تو گھنٹی بجائی پانی حاضر، چائے آگئی اور جس کو چاہا فون کرلیا۔ اچھا جائیں بیٹھ جائیں۔ بے چارے ہمارے ساتھی نے یہ جملہ ہمیں بتادیا۔ پھر کیا تھا آج یہ جملہ کام سے بچنے والوں کے لیے ایک ریفرنس (حوالہ) بن گیا ہے۔ ایسے لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ دفتر جیسا آرام گھر میں کہاں۔ اب شرجیل میمن والے معاملے میں چیف جسٹس کے حکم سے یہی بات سامنے آئی کہ ہسپتال جیسا آرام جیل میں کہاں؟ دیکھ بھال کو بھی روز نئے نئے چہرے آئیں گے۔ چوں کہ ہسپتال حکومت سندھ کے دائرہ اختیار میں آنے والے شہر میں ہے اس لیے تمام مراعات اور سہولتیں دی جاتی ہیں۔ ہمارے علم میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے بینکوں سے تجارت کی غرض سے قرضے لیے لیکن نقصان کر بیٹھے اور چند لاکھ ادا نہ کرنے پر کئی کئی سال جیل میں پڑے رہے۔ کئی لوگ جیل ہی میں مر گئے اور جو بچ گئے واپس آکر کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔ انہیں تو ہسپتال کی سہولت نہیں ملی۔
بہرحال چیف جسٹس کا بھلا ہو کہ ہسپتالوں پر سے بھی غیر ضروری اضافی بوجھ ختم کیا۔ یہ وی آئی پی قیدی صرف ایک بستر پر تو براجمان ہوتے نہیں یہ تو پورے پورے کمرے بلکہ وی آئی پی سوٹ پر قبضہ کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں آغا خان ہسپتال کا پورا فلور معروف جواری شعیب خان کے لیے بند رہتا تھا کیوں کہ موصوف جیل کے بجائے علاج کے لیے وہاں مقیم تھے۔ سابق صدر مملکت آصف زرداری صاحب جیل ہی کو وی آئی پی بنائے ہوئے تھے۔ ہم نے سول ہسپتال کے ایک ایسے ہی وی آئی پی وارڈ کو دیکھا ہے جہاں ایف آئی اے کے چھاپے سے خوفزدہ ایک تاجر کو حکومتی انتظامیہ کے اعلیٰ افسر نے پناہ دلوا رکھی تھی۔ پورا کمرہ ہوٹل کے کمرے کی طرح تھا۔ پتا نہیں کرایہ بھی دے رہے تھے یا سرکاری کھاتے میں پڑے تھے لیکن یہ تو نہایت معمولی نوعیت کے وی آئی پی تھے۔ شرجیل میمن تو اربوں روپے کے الزامات میں قید ہیں چند کروڑ جیل اور ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف بھی چھڑک دیں تو کافی ہوں گے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو گرفت میں آگئے، مقدمہ چل رہا ہے اور یہ جیل میں ہیں۔ بہت سے تو اتنے زیادہ وی آئی پی ہیں کہ پولیس کو عدالتیں حکم دیتی ہیں پکڑ کر لاؤ۔ اور پولیس کہتی ہے ملتے ہی نہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی مثال سامنے ہے ہر دوسرے روز جلد۔۔۔ ہر ہفتے میڈیا ٹاک شوز پر بھی کانفرنسیں وغیرہ۔ اور پولیس کو ملتے ہی نہیں۔ اسے تو سیاسی وی آئی پی کہا جاسکتا ہے۔ جیلوں میں پہلے تو صرف کھانا پینا، مشقتی وغیرہ ملتے تھے اب تو وائی فائی، انٹرنیٹ، موبائل، فیملی۔۔۔ سب کچھ ملتا ہے۔ دوستوں کی محفلیں جمتی ہیں۔ جیل کا عملہ اور افسران وی آئی پی قیدیوں کے ساتھ محفلیں جماتے ہیں اور ان محفلوں میں کیا ہوتا ہے۔ یہ بتانے یا پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے ان قیدیوں کو ہسپتال سے جیل تو بھجوا دیا ہے لیکن انہیں جیل پر بھی نظر رکھنی پڑے گی۔ یہ لوگ جہاں جاتے ہیں وہیں وی آئی پی سہولتیں حاصل کرنے لگتے ہیں۔ پولیس کا یہ عالم ہے کہ اب عرصے سے سندھ پولیس میں سندھ کے اضلاع ہی سے بھرتیاں ہورہی ہیں تو افسران بھی لامحالہ ان ہی اضلاع سے آتے ہیں جہاں سے یہ قیدی آرہے ہیں۔ لہٰذا ایک دوسرے کا خیال تو رکھنا پڑتا ہے۔ چناں چہ یہ مسئلہ بھی چیف جسٹس کے لیے امتحان ہے۔ اب ہاتھ ڈالا ہے تو جیل سے بھی وی آئی پی کلچر ختم کرائیں۔ ورنہ یہ لوگ کہیں گے کہ جیل جیسا آرام گھر میں کہاں؟؟۔