شخصیات ضائع ہوگئیں

958

فقہی اختلافِ رائے جب علماء کے مباحث سے نکل کر جہلا کی مجالس تک جاپہنچے اورعوام کے ہاتھ میں ہتھیار کے طورپر تھما دیا جائے تواُمت کا اختلاف رحمت کی جگہ زحمت اور سہولت و رعایت کی بجائے فتنہ بن جاتاہے۔
مسلک اور فرقہ واریت کی جنگ میں معصوم انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ ایسی بہت سی شخصیات بھی ضائع ہوگئیں، جن کی شناخت اگرمسلکی اور فرقہ وارانہ نہ ہوتی تو وہ نہ صرف ملت اسلامیہ پاکستان کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہوتے بلکہ عالم اسلام کے بھی بہت بڑے رہنما بن سکتے تھے۔ ہمارے موجودہ دینی رہنماؤں اورمذہبی پیشواؤں کو اس موضوع پرضرور سوچنا چاہیے۔ آج جب ہم نے اِس موضوع پر سوچنا شروع کیا تو ایسی ہی بے شمار شخصیات میں سے ایک۔۔۔ علامہ عبدالمصطفی الازہری مرحوم۔۔۔ یاد آگئے۔ہائے کیسی قیمتی شخصیت تھے۔
ازہری صاحب شیخ الحدیث تھے۔ ماہر فقیہ تھے۔ اچھے معلم تھے اور شعلہ بیان خطیب تھے۔مگر خطابت کے ان شعلوں کو اُنہوں نے بیش تر مسلکی حریفوں کے بھسم کردینے ہی کو استعمال کیا اور بڑی کامیابی سے کیا۔جب وہ جامع مسجد طیبہ سعودآباد (کراچی) میں جمعہ کے روز اپنی خطابت کے جوہر دکھانا شروع کرتے تو راہ چلتے لوگ اُن کی جادو بیانی سے مسحور ہوہوکر رُک جایا کرتے۔اُن کی حکایتوں، حاضر جوابیوں اور قصہ گوئیوں میں گم ہوجاتے۔طیبہ مسجد کا لاؤڈاسپیکر بھی خاصا ’’لاؤڈ‘‘ ہوا کرتاتھا۔جب مولانا ازہری خطاب فرماتے تو سعود آباد کا ہرگھر صرف اُنہی کی آواز سے گونج رہا ہوتا تھا۔مولانا بہت لہک لہک کر اور بڑے لحن سے خطاب فرماتے تھے۔دورانِ خطاب میں مسکراتے بھی جاتے تھے۔’’آئیں؟‘‘ اُن کا تکیہ کلام تھا۔ مولاناکی ڈاڑھی اُن کی ٹھوڑی پر گنجان تھی۔ رُخساروں پر چھدری۔سرپر یاتو صافہ باندھتے تھے یا کپڑے کی دوپلی ٹوپی اوڑھتے تھے۔ سادہ کرتاپاجامہ ۔۔۔اورشلوار قمیض عام ہونے کے بعد ۔۔۔ کرتاشلوار پہنتے، مگر جب منبر پر بیٹھتے تو عبا وقبا بھی زیب تن کر لیتے۔ جبہ و دستار میں نمودار ہوتے۔گلیوں ، کوچوں، بازاروں میں پیدل پھرتے رہتے تھے۔ کپڑے کا ایک تھیلا ہاتھ میں (بطور بریف کیس) لیے بسوں اور’’لوکل ٹرینوں‘‘ میں سفرکیا کرتے تھے۔
مولانا، بٹن دبائیے!
۱۹۷۰ء میں جب ’’مسلکی سیاست‘‘ کی بنیاد پر ووٹ طلبی کازور بندھا تو مولانا ازہری نے اس میں پورے زور و شور سے حصہ لیا اور قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔مولانا زبردست سیاسی ذہن رکھتے تھے۔ سیاسی داؤپیچ کے ماہر تھے۔اورجیسا کہ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں تقریر و خطابت کے مردِ میدان تھے۔مگر تعلیم دینی مدارس سے باہر کی نہ تھی۔جدید دُنیا سے اُن کی واقفیت بس واجبی سی تھی۔اُن کو دیکھ کراوراُن کی باتیں سن کر وہی مشہور لطیفہ یاد آتا تھا کہ جب ایک پادری نے ایک روز چرچ سے باہر نکل کرگلیوں میں کھیلتے بچوں سے مقامی ڈاک خانے کا پتا پوچھا تو ایک بچے نے بڑے احترام سے فادر کوراستہ سمجھایا۔ فادر خوش ہوئے۔ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:
’’شاباش! تم چرچ آنا۔ میں تمہیں جنت کا راستہ بتاؤں گا‘‘۔
فادر سرپر ہاتھ پھیر کر چلے گئے تو بچے نے کہا:
’’ہنھ! ڈاک خانے کارستہ تو معلوم نہیں، جنت کا رستہ بتائیں گے‘‘۔
مولانا ازہری سعودآباد کی گلیوں سے نکل کر اچانک اسلام آباد کی بھول بھلیوں میں جاپہنچے تھے۔ایوانِ اسمبلی اُنہوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔پہلی مرتبہ اُن سے کئی لطائف سرزد ہوئے۔اکثرایسا ہوتا کہ مولانا رات گئے تک راولپنڈی یا اس کے نواح میں محفل میلاد سے خطاب فرماتے اور صبح اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ جاتے۔رات کی نیند کی کسر صبح کے اجلاس میں نکالنے کی کوشش کرتے۔ مگر چوں کہ مولانا سوتے میں بلندبانگ خراٹے لینے کے عادی تھے، چناں چہ اکثر ایسا ہوتا کہ ہم نشیں کی شکایت پراسپیکر صاحب بذریعہ ’’رولنگ‘‘ اُنہیں بیدار کرواتے۔ اُن کا ایک قصہ بہت مشہور ہوا۔جب پہلی بار فلور اُن کے حوالے کیا گیا تو وہ اُٹھے اور سخن سرا ہو گئے۔ مائک کا بٹن آن نہ کیا۔ہرچند کہ مولانا کی آہنگ بھری آواز کو اس کی ضرورت نہ تھی، مگر لوگوں نے شور مچادیا:
’’مولانا! بٹن دبائیے!۔۔۔مولانا! بٹن دبائیے!‘‘
مولانا نے اس شورشرابے سے تنگ آکر اپنی شیروانی کے سارے بٹن ایک ایک کر کے دباکر دیکھ لیے مگر شور نہ تھما۔جھلا کر پوچھا:
’’ارے بھئی کون سا بٹن دباؤں؟سارے بٹن تو دبے ہوئے ہیں‘‘
اس پر ہم نشیں ہی کام آیا۔ اُس نے اُٹھ کر مولانا کی ذات سے باہر کاایک بٹن دبادیا اور شور تھم گیا۔
مولانا کی خوش گوئی اور خوش گفتاری سے اسمبلی میں رونق رہا کرتی تھی۔مولانا کوثر نیازی نے اسمبلی کے فلورپر ہی اُن کی شان میں ایک فی البدیہہ قطعہ کہاتھا۔اب صرف دو مصرعے حافظے میں رہ گئے ہیں:
نکتہ بین و نکتہ داں الازہری
واعظِ شیریں بیاں الازہری
فارسی میں ’’کھ‘‘ نہیں ہوتا
علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری بڑے اعلیٰ درجہ کے لطیفہ گو تھے۔ایک روز سعودآباد ہی کی ایک محفل میں یہ ذکر چھڑ گیا کہ جس طرح انگریزی میں ’’خ‘‘ نہیں ہوتا، اُسی طرح فارسی میں ’’کھ‘‘ نہیں ہوتا۔اُسی زمانے میں ، کہ’’ بھٹوصاحب کا زمانہ‘‘ تھا،شاہِ ایران آریا مہر رضاشاہ پہلوی اپنا ڈھائی ہزار سالہ جشن بادشاہت ہم سے منوانے کے لیے پاکستان تشریف لائے تھے۔اب خدا جانے یہ واقعہ تھا یا علامہ ازہری کا خود ساختہ لطیفہ،مگر اُنھوں نے مزے لے لے کر سنانا شروع کیا کہ مترجم نے پاکستان کے چاروں گورنروں کا شاہِ ایران سے تعارُف کیسے کرایا۔۔۔
مترجم: ’’اعلیٰ حضرتِ ہمایوں۔۔۔ ایں رئیسانیِ بلوچستان است!‘‘
اعلیٰ حضرت نے غوث بخش رئیسانی کی طرف دیکھا اور فرمایا:
’’بلے بلے ۔۔۔ خوب است‘‘
(ہاں ہاں۔۔۔ بہت اچھاہے)
اب مترجم آگے بڑھا اور بولا:
’’اعلیٰ حضرتِ ہمایوں۔۔۔ ایں ممتازِ سندھ است‘‘
اعلیٰ حضرت نے گورنرسندھ ممتاز علی بھٹو کو دیکھا اور فرمایا:
’’بلے بلے ۔۔۔ خوب است‘‘
اب مترجم مزید آگے بڑھا اور بولا: ’’اعلیٰ حضرتِ ہمایوں۔۔۔ ایں شیرپاوِ صوبہ سرحد است‘‘۔
اعلیٰ حضرت نے حیات محمدخان شیرپاؤکودیکھا اور اُن کی بھی تحسین کی:
’’بلے بلے۔۔۔ خوب است‘‘
مگر جب گورنرپنجاب کی باری آئی تو مترجم گڑبڑا گیا۔سوچنے لگاکہ کیا کرے؟ مگر سوچنے کا موقع نہ تھا۔ فیصلہ فوراً کرنا تھا۔ بوکھلاکر بولا:
’’اعلیٰ حضرتِ ہمایوں! ایں خرِ پنجاب است!‘‘