جیو اسٹرٹیجک حالات اور فوج میڈیا مکالمہ 

358

فوج کسی بھی ملک کی اور کتنی ہی طاقتور اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہی کیوں نہ ہو اپنی دنیا اور ڈسپلن کے جزیرے میں مقید نہیں رہ سکتی۔ باالخصوص ان علاقوں میں جہاں کشیدگی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہو اور یہ کشیدگی نہ صرف عوام کی سماجی، معاشی زندگی اور طرز حیات پر اثر انداز ہوتی ہو بلکہ ہلاکتوں، نقل مکانی اور خوف کے باعث عوام کے ذہنوں اور ان کی نفسیات پر بھی اثر انداز ہوتی ہو فوج اور عوام کے درمیان قریب رابطہ ناگزیر ہوتا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں اور ہمہ وقت کھلے اور نادیدہ دشمن کے نشانے پر کھڑی آبادی کے دل وماغ جیتناآدھی جنگ جیتنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس سے لوگوں میں احساس تحفظ اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ چند سال قبل جب بھارت وادی کشمیر کے عوام کی مقبول تحریک کو ہتھیاروں سے دبانے اور کچلنے اور ان کے سر جھکانے میں ناکام ہوا تو اس کے فوجی دماغوں کو ڈریکولا کا تاثر کم کرکے ’’عوام دوست‘‘ امیج بناکر ان کے دل و دماغ جیتنے کی ترکیب سوجھی اور یوں کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں ’’آپریشن سدبھاونا‘‘ (خیر سگالی آپریشن) کے نام سے عوامی بھلائی کے کاموں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بعد کے حالات میں یہ تدبیر بھی اُلٹی ہوگئی اور کشمیر میں عوامی مزاحمت کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں نہ صرف پاکستان کی حکومت بلکہ مسلح افواج کا کردار اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور معاہدہ کراچی کے تحت ریاست جموں وکشمیر کے حتمی تصفیہ تک بحال ہے۔ یہی نہیں بلکہ چین کے زیر انتظام اقصائے چن کے علاقہ میں بھی حتمی تصفیہ تک اسٹیٹس کو برقرار ہے۔ حتمی تصفیہ کے بعد خطے کی کیا شکل وصورت اُبھرتی ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ اس دوران پاکستان ان علاقوں کے دفاع اور انتظام وانصرام اور بیرونی روابط کا ذمے دارہے۔ بھارت چوں کہ اس سے قطعی مختلف بیانیہ اپنائے ہوئے ہے اس لیے خطے میں چین اور پاکستان کے ساتھ اس کا ٹکراؤ فکری اور عملی طور پر جاری ہے۔ بھارت کسی بین الاقوامی قاعدے ضابطے کو ماننے کے بجائے اس خطے پر اپنا دعویٰ جتلا رہاہے۔ خطے کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار نے خطے کو پر آشوب بنا دیا ہے۔ یہ آشوب اور عارضہ کبھی بڑھ کر باقاعدہ جنگوں کی صورت اختیار کرتا رہا ہے اور کبھی اس کی نوعیت اور سنگینی محدود ہو کر کنٹرول لائن کے تصادم اور سفارتی پنجہ آزمائیوں تک سمٹ جاتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوا کہہ کہ کبھی راوی نے طویل مدت تک چین ہی چین لکھا ہو۔ ان دنوں کشمیر کی کنٹرول لائن پوری طرح گرم ہے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری جنگ کا ایک نیا میدان بن کر رہ گئی ہے۔ ایک خالص اقتصادی سرگرمی کو دفاعی جھگڑا بنا دیا گیا ہے۔ بھارت اقتصادی راہ داری کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اسے پاکستان کے مستقبل اور علاقائی اور عالمی کردار کی خوردبین سے دیکھ رہا ہے۔ بات یہیں تک محدود رہتی تو کچھ نہ تھا امریکا اسے چین کے مستقبل اور عالمی اور علاقائی کردار کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور یوں یہ دونوں خوف یکجا ہو کر ایک بڑا اور مستقل چیلنج بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکا اور بھارت خوف کے رشتے میں بندھ کر نئے عسکری اور عوامی چیلنجز کھڑے کررہے ہیں۔ آزاد کشمیر، گلگت اور ہزارہ اس نئی کش مکش کا نقطہ آغاز بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دل و دماغ کی جنگ جیتنا عوام کو احساس تحفظ دلانا، ان کا ریاست پر اعتماد بحال و برقرار رکھنے میں مدد دینا اور عوام کے لیے فوج کو ایک الگ سیارے اور جزیرے کی مخلوق بننے سے روکنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی ضرورت کا احساس تھا کہ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے آزادکشمیر گلگت بلتستان اور ہزارہ کے چنیدہ قلم کاروں کے ساتھ مکالمے کے لیے تین دن مختص کیے۔ چوں کہ عوام اور فوج کے درمیان رابطے کا سب سے موثر ذریعہ میڈیا ہے اس لیے یہ مکالمہ کچھ اور اہمیت کا اختیار کرگیا تھا۔ فی زمانہ فوج کا کردار وسعت اختیار کرگیا ہے یہ محض جنگوں تک محدود نہیں رہا بلکہ امن کے دور میں بھی اس طاقت سے استفادہ کیا جارہا ہے۔
فوج کسی معاشرے میں روایتی سسٹم کا متبادل نہیں بن سکتی بلکہ سوسائٹی اور مروجہ سسٹم کے درمیان رابطہ مضبوط بنانے اور اعتماد بحال کرنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر سکتی ہے کیوں کہ سسٹم پر عوام کا اعتماد کم ہونے سے مایوسی جنم لیتی ہے اور مایوسی کے دہشت گردی سمیت کسی بھی منفی ردعمل کی شکل میں ڈھلتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اس تین روزہ دورے میں آزاد کشمیر سے راجا حبیب اللہ خان، محمد اسلم میر، بشارت مغل، آصف زاہد راشد نذیر، محمد علی وقاص چغتائی، ماجد آرائیں جب کہ گلگت بلتستان سے فیض اللہ فراق، سید ایمان شاہ، نثار عباس، محمد حسین آزاد، اقبال عاصی، راجا کاشف، شہاب الدین غوری، ایبٹ آباد مانسہرہ سے مختار اعوان، شاہد چودھری، شہاب الدین خان شامل تھے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے اس وفد کے لیے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے دور ے اور ایک بریفنگ کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ این ڈی یو میں دی جانے والی بریفنگ میں فوج سے متعلق اس اہم ادارے کو سمجھنے میں ہی مدد نہیں ملی بلکہ جیو اسٹرٹیجک معاملات پر بھی کھل کر سوال و جواب ہوئے۔ اس ادارے میں سیکورٹی اور پالیسی سے متعلق ہمہ وقت کام ہوتا ہے اور بحث وتمحیص اور مکالمے کے بعد مرتب ہونے والی سفارشات متعلقہ ریاستی اداروں کو بھیجی جاتی ہیں۔ ایک اور اہم پروگرام دور ے کے میزبان او ر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور سے ملاقات اور سوال و جواب کی طویل نشست تھی۔
میجر جنرل آصف غفور نے بدلتے ہوئے حالات میں نہ صرف میڈیا کی اہمیت بلکہ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا تذکرہ۔ اس گفتگو میں کشمیر کی تحریک آزادی کی وجہ سے آزادکشمیر جب کہ سی پیک کو ہدف بنانے کے حوالے سے گلگت بلتستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا احساس بھی پایا جاتا تھا۔ یہاں پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بڑھتے ہوئے چیلنجوں پر کھل کر بات ہوئی۔ انہوں نے آپریشن ردالفساد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ جنگ اور دشمن دراصل مشرق میں ہے وہی بھیس بدل کر مغرب سے بھی حملہ آور ہے۔ گویا کہ فوجی حلقوں میں یہ احساس اب نمایاں ہے کہ مشرق سے افغانستان کو مصنوعی طور پر خطرہ بنایا گیا بلکہ اس خطرے کی وجہ بھی بھارت ہے۔ ایک اہم ملاقات ٹین کور ہیڈکوارٹر میں کور کمانڈر جنرل ندیم رضا کے ساتھ تھی۔ کنٹرول لائن اور پاک بھارت کشیدگی پر نظر رکھنے والے صحافیوں کے لیے یہ ملاقات اس لحاظ سے اہم تھی کہ پاک فوج کی دسویں کور اس پورے پہاڑی خطے کے دفاع کی ذمے دار ہے۔ اس وقت کنٹرول لائن پر بہت کشیدگی ہے اور اس روز بھی کوٹلی سیکٹر میں اسکول وین کو نشانہ بنا کر بھارتی فوج نے ڈرائیور کو شہید کیا تھا۔ کشیدگی کے باعث گاؤں خالی کرائے جا رہے ہیں، میزائلوں کی تنصیب اور ہوائی اڈے بنانے کی خبریں آرہی ہیں اور سول آبادی کا نقصان ہورہا ہے تو ایسے میں کیا حالات ایک باقاعدہ جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ جنرل ندیم رضا نے پراعتماد اور خالص پروفیشنل انداز میں اس کا جواب دیا کہ بھارت جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اگر انہوں نے حماقت کی تو وہ ہمیں اپنا منتظر پائے گا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خطے میں باقاعدہ اور فوری کسی جنگ کا امکان نہیں مگر بھارت کے غبارے میں چوں کہ پاکستان کے بچھڑے ہوئے ’’دوست‘‘ نے اتنی ہوا بھردی ہے کہ وہ سی پیک اور کشمیر پر زمینی حقائق پر مبنی سوچ اختیار کرنے کے بجائے حماقت کی ہواؤں میں اُڑ رہا ہے جس سے ہلکے تصادم کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ اس دورے کا ایک اہم مرحلہ جی ایچ کیو میں بین الاقوامی معیار کے آرمی میوزیم کا دورہ تھا۔ اس میوزیم پاک بھارت جنگوں سے متعلق دستاویزی اور تصویری ریکارڈ موجود ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام اور فوج کی قربانیوں کو بھی اس مہارت سے جمع اور آویزاں کیا گیا ہے کہ قربانیوں کی پوری تاریخ نظروں میں گھوم جاتی ہے۔ میوزیم کا ایک دلچسپ مقام کنٹرول لائن پر قائم ایک مورچہ ہے جہاں داخل ہوتے ہی گولیوں کی گھن گرج اور تڑتڑاہٹ، سوندھی مٹی کی خوشبو، لالٹین کی مدہم روشنیاں ماحول کو حقیقی بناتی ہیں۔