ایوانِ صدر میں میری گفتگو کا خلاصہ

381

16جنوری 2018ء کو ایوانِ صدر میں جو مجلس قائم ہوئی، اگر اس پر ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا بوجھ نہ ڈالا جاتا اور براہِ راست فتوے کے پیغام کو پوری قوت سے پھیلایا جاتا، تو اس سے بہتر نتائج برآمد ہوتے۔ چناں چہ اصل مخاطَبین یعنی تحریک طالبانِ پاکستان نے فتوے کے پیغام ہی کو اصلِ مقصد سمجھا اور اپنا جوابی بیانیہ فتوے کی صورت میں پیش کیا ہے، جس میں انہوں نے پاکستانی افواج کے سامنے برضا ورغبت سرینڈر کرنے والے اپنے سابق ساتھیوں کو بے ہمت، ضعیف الایمان اور افغانستان کی طرف اپنی ہجرت برباد کرنے والے قرار دیا ہے، اگر ان کا موقف مِن وعَن پیش کردیا جائے تو یہ الزام لگے گا کہ ان کی ترجمانی کی جارہی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان کا موقف کسی کو اپیل نہیں کرتا تو جناب اوریا مقبول جان کا آرٹیکل بعنوان ’’جمہوریت، اسلام اور پاکستان‘‘ پڑھ لیجیے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جمہوریت اپنی روح کے اعتبار سے سیکولر ہے، تاہم جب تک دستور کے آرٹیکل 2میں ہر قسم کی قانون سازی کو قرآن وسنت کے تابع قرار دینے کی لازمی شرط موجود ہے، یہ آرٹیکل ہماری جمہوریت کو قانون سازی کی حد تک پابند کرکے دیگر سیکولردساتیر سے ممتاز کرتا ہے۔ لیکن جب تک آرٹیکل 2کو پورے دستور پر بالادست اور غیر متبدل نہیں مانا جائے گا، اس سے انحراف کا امکانی خطرہ موجود ہے، کیوں کہ قانون سازی پارلیمنٹ کے اختیار میں ہے اور اُسے دو تہائی اکثریت سے دستور میں ترمیم کا حق بھی حاصل ہے۔ ماضی میں سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ اس حوالے سے ایک خطرناک ریمارکس دے چکے ہیں کہ آئین کا کوئی آرٹیکل دوسرے آرٹیکلز کو Overlap نہیں کرسکتا، یعنی بالادست نہیں ہے۔ افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی اور اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر جناب عمر زخیلوال نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں بھی ایک ’’پیغامِ افغانستان‘‘ مرتّب کرکے دیدیجیے، بلکہ یہ کہا کہ ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی فتویٰ جاری کرا دیجیے۔ ظاہر ہے کہ اس فتوے کے اصل مخاطَب تحریک طالبانِ پاکستان اور اُن کی فکر سے متاثرہ لوگ ہیں۔
میں نے اسی لیے اپنی مختصر گفتگو میں کہا تھا: ہمیں فلسفیانہ گفتگو کرنے کے بجائے براہِ راست درپیش مسئلے پر بات کرنی چاہیے اور وہ مسئلہ یہ ہے: ’’داعش، القاعدہ یا تحریکِ طالبانِ پاکستان جو بھی نام دیں، اُن کا بیانیہ یا موقف یہ ہے کہ جمہوریت کفر ہے، پاکستان کا دستوری نظام کفر ہے اور اس کے خلاف جہاد فرض ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ، مسلّح افواج اور پوری اسٹیبلشمنٹ کفر وارتداد کے اس نظام کی محافظ ہے۔ پس جو عوام اس کفریہ نظام کو مٹانے کے لیے میدانِ عمل میں نہیں آرہے، بالواسطہ وہ بھی کفر کے حامی ہیں اور جو علماء اُن کے نظریے کے حامی بن کر اس پورے ریاستی اور دستوری نظام کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے یا جہاد نہیں کرتے، اُن کا بھی یہی حکم ہے، سو ان سب کے خلاف جہاد واجب ہے‘‘۔ میں نے اپنے فتوے میں بھی اسی بنیادی نکتے کو موضوع بنایا، کیوں کہ ہمارا دستور قرآن وسنت کی بالادستی کا حامی ہے، ریاست کو پابند کرتا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہ بنے، ریاست اپنے عوام کو اسلامی احکام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے حالات کو سازگار بنائے اور سہولتیں فراہم کرے۔ لہٰذا اپنے دستوری میثاق کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کی ہیئتِ مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ جب تک عَلانیہ احکامِ الٰہی کو ردّ نہ کرے، اس پر کفر کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا، البتہ اپنے دستوری میثاق پر پورا نہ اترنے یا مِن وعَن شریعتِ الٰہی پر عمل نہ کرنے کے سبب وہ خالق اور خلق کے سامنے جوابدہ رہیں گے۔ مزید یہ کہ آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پُرامن طریقے سے نفاذِ شریعت کے لیے آواز بلند کرنا یا جدّوجہد کرنا دستور کا تقاضا بھی ہے اور جمہوری اقدار کے منافی بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ہم پورے نظام کو کفر قرار دینے کے بیانیے کو ردّ کرتے ہیں‘‘۔
لیکن بعد کے خطابات روایتی انداز اختیار کر گئے اور چوں کہ فتوے پر ’’پیغام پاکستان‘‘ کا بوجھ لاد دیا گیا تھا، لہٰذا فتویٰ پسِ پشت چلا گیا اور پیغامِ پاکستان کی قصیدہ خوانی اصل موضوع بن گئی، حالاں کہ یہ کاوش بنیادی طور پر فتوے کے اجراء کے لیے کی گئی تھی، لیکن کچھ عناصر کریڈٹ لینے کے لیے ایسے مواقع پر قابض ہوکر اصل مشن کو غارت کردیتے ہیں۔ چناں چہ تحریکِ طالبانِ پاکستان کا جوابی بیانیہ یا موقف بعنوان: ’’اَلْحَارِقُ عَلَی الْمَارِق (دین سے نکلنے والے کے لیے آتشیں ہتھیار)‘‘ سامنے آیا، اس سے میرے موقف کی تائید ہوگئی، میں نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ ہمارے اصل دشمن وہ ہیں جو بیرونِ ملک اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ کر ہمارے وطنِ عزیز کے اندر قتل وغارت کے منصوبے بنارہے ہیں، ہماری سلامتی کے اداروں کے اہلکاروں اور بے قصور لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، ہماری دفاعی تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کر کے اپنے کارندوں کے ذریعے اس پر عمل در آمد کرتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو ہماری سرحدوں کے اندر بیٹھ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ اُسی بیانیے کو بنیاد بناتے ہیں، جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا ہے۔ چناں چہ میں نے کہا: ہماری مسلّح افواج نے ضربِ عضب اور ردّ الفساد کے نام سے ان باغی عناصر کے خلاف جو آپریشن شروع کر رکھا ہے، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ میں نے اپنی گفتگو میں بتایا: اسلام میں کفروشرک کے بعد قتلِ ناحق سب سے بڑا گناہ ہے، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اولادِآدم میں قتل کے پہلے واقعے کا پسِ منظر بیان کرکے فرمایا: ’’اسی سبب ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس شخص نے قصاص یا فساد فی الارض کے بغیر کسی (بے قصور) جان کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے ایک (بے قصور) جان کو بچایا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا اور بے شک ان کے پاس ہمارے رسول روشن معجزات لے کر آئے، پھر اس کے باوجود بہت سے لوگ زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، ان کی یہی سزا ہے کہ ان کو چن چن کر قتل کیا جائے یا ان کو سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سَمت سے کاٹ دیے جائیں یا اُن کو زمین سے نکال دیا جائے، یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے، سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے تمہارے ان پر غلبہ پانے سے پہلے توبہ کرلی ہو، سو جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے، (المائدہ: 32-34)‘‘۔
اس آیت کی رُو سے فساد فی الارض اور قتلِ ناحق بہت بڑا جرم ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے دیگر جرائم کے مقابلے میں اس کی سزا بھی سب سے سخت اور عبرت ناک مقرر کی ہے۔ یہ بھی واضح فرما دیا کہ شریعت انسانی جان کو تحفظ دیتی ہے، لیکن قتلِ ناحق اور فساد فی الارض کا مجرم اس تحفظ کا حق دار نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ خود اپنی جان کی حرمت کو اپنے عمل سے مباح کرچکا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سو اگر مومنوں کا ایک گروہ دوسرے کے خلاف بغاوت کرے، تو بغاوت کرنے والے گروہ سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں، سو اگر وہ (اللہ کے حکم کی طرف) لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل اور انصاف کے ساتھ صلح کرو، (الحجرات: 9)‘‘۔
الغرض فساد فی الارض اور مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے خلاف، جو ریاست کو قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کا پابند بناتا ہے، مسلّح بغاوت کو طاقت سے کچلنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ اگر یہ لوگ مغلوب ہونے سے پہلے توبہ کرلیں یا امرُ اللہ یعنی حکمِ شرعی کی طرف لوٹ آئیں، تو ان کے ساتھ مصالحت کی گنجائش موجود ہے۔ میں نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا: گزشتہ دو تین سال سے امام الحج اور ائمۂ حرمین طیبین ان باغی گروہوں کو خارجی اور تکفیری قرار دے رہے ہیں، ہم ان ائمۂ کرام کی اس رائے کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن اُن سے ہمیں گلہ ہے کہ ہم گزشتہ تقریباً پندرہ سال سے اس آگ میں جل رہے ہیں، اگر ہمارے دکھ کو انہوں نے اپنا دکھ سمجھا ہوتا اور روزِ اوّل سے یہ فتویٰ جاری کردیا ہوتا، تو شاید اس آگ کے شعلے اُن کی سرحدوں تک پہنچنے سے پہلے بجھ چکے ہوتے، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہاں سے ان گروہوں کو کسی نہ کسی انداز میں تائید اور نظریاتی و مادّی تقویت بھی ملتی رہی۔ لیکن اب چوں کہ اس آگ کے شعلے ان کی سرحدوں پر دستک دے رہے ہیں، اس لیے ان کی تپش کو انہوں نے محسوس کیا اور یہ فتویٰ جاری کیا، سو ہم کہتے ہیں: اگرچہ ’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘ لیکن پھر بھی دیر آید درست آید۔ لیکن اب بھی فکری اور استدلالی سطح پر منظّم انداز میں تسلسل کے ساتھ کام نہیں ہورہا، جب کہ یہ فکر بہت سے ذہنوں میں راسخ ہوچکی ہے اور مرضِ مُزمِن کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ پس جو اعتقادی بیماری دل دماغ میں پیوست ہوجائے اور ٹیومر کی شکل اختیار کرلے، تو اس کے لیے بہت جامع اور بے رحم آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
چناں چہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ غلام محمد سیالوی نے بتایا کہ چائے کے وقفے کے دوران ایک عالم کہہ رہے تھے کہ یہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے ہے۔ میں نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا تھا: اقلیت کی اصطلاح ترک کردینی چاہیے، کیوں کہ یہ ایک اضافی اصطلاح ہے اور اس سے احساس محرومی کا تاثر پیدا ہوتا ہے، ہمیں غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاح رائج کرنی چاہیے، کیوں کہ ہر پابندِ آئین وقانون غیر مسلم پاکستانی کو جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو صدر ممنون حسین یا مجھے یا کسی اور کو حاصل ہیں۔