مقدمات کی خرید و فروخت!

252

ناصر حسنی

یہ بڑی اچھی بات ہے ایک خوش آئند اقدام ہے کہ عدالت عظمیٰ نے عادی مقدمے بازوں کے داخلے پر عدالت عظمیٰ کی رجسٹریوں پر پابندی لگادی ہے۔ جسٹس صاحبان کا خیال ہے کہ مقدمے بازی کے شوقین عدالت کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے وکلا بھی متفق ہوئے تو عادی مقدمے بازوں سے عدالتوں کی جان یقیناًچھوٹ جائے گی مگر جعلی مقدمے باز اور بے بنیاد مقدمے دائر کرنے والوں کی صحت پر کیا فرق پڑے گا؟ شاید ہمارا ملک دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں مقدمات کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں مقدمے بازوں کی کوئی کمی نہیں یہ بھی ایک چسکا ہے۔
یادش بخیر! کسی بھی معاملے میں ازخود نوٹس لینے میں دو وکلا نے خوب نام کمایا ہے۔ شاید اب وہ اللہ کی عدالت میں بھی یہی کام کررہے ہوں گے کہ عادت بڑی ظالم ہوتی ہے قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی۔ ایک ایسے ہی عادی مقدمے باز سے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحب نے استفسار کیا تھا کہ آپ کو اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں۔ مگر ان پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی کیوں کہ وہ لائسنس یافتہ وکیل تھے، شاہد اورکزئی کے پاس وکالت کا لائسنس نہیں اس لیے عدالتی حکم کی زد میں آگئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے وکلا اس معاملے میں کیا مشورہ دیتے ہیں۔ عام مشاہدہ تو یہی ہے کہ ہر شہری عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق رکھتا ہے اور عدلیہ کسی شہری کو اس کے بنیادی حق سے محروم نہیں کرسکتی۔ عدالتی نظام پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ جو لوگ بے بنیاد اور جعلی مقدمے بازی کا شغل فرماتے ہیں وہ ذہنی اذیت اور دل آزاری کا باعث ہوتے ہیں مگر عدالت عظمیٰ اس معاملے میں سوچنے یا کچھ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ عدالت عظمیٰ کو عادی مقدمے بازی پر پابندی لگانے کا خیال تو آگیا مگر جعلی مقدمے بازوں اور بے بنیاد مقدمے دائر کرنے والوں پر پابندی لگانے کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں کیا۔ حالاں کہ جعلی اور بے بنیاد مقدمات نہ صرف عدالتوں کا وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ قومی سرمائے کا زیاں کرنے کے باعث بنتے ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ جعلی اور بے بنیاد مقدمات پر پابندی لگادے تو یہ ایک ایسا نیک کام ہو گا جو قومی خدمت کہلائے گا اور اللہ سے اجر بھی ملے گا۔ عدالتیں اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں ہوں گی کہ عدالتوں میں کرائے کے گواہ بھی مل جاتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا کہ ان کی گواہی ایک ایسا کاروبار ہے جس میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ بھی ایسا چوکھا آتا ہے جو ہر طرح کے میک اپ سے بہتر اور خوش نظر ہوتا ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی ہوتا ہے اگر کسی کمزور شخص کے رقبے یا جائداد پر کوئی طاقت ور شخص قابض ہو جاتا ہے اور مظلوم پیشی در پیشی کے ابلیسی چکر سے گھن چکر بن جاتا ہے تو ایسے میں کوئی پارٹی یا کوئی شخص اس سے ہمدردی جتاتا ہے اور پھر اس ہمدردی اور غم گساری کی آڑ میں اس کی جائداد اور رقبہ اونے پونے داموں خرید لیتا ہے۔ اور اپنے نام مختار نامہ لکھوا لیتا ہے یا رجسٹری اپنے نام کروالیتا ہے، ایسے واقعات بھی عام ہیں کہ حق دار عدالت سے داد رسی کا طلبگار ہوتا ہے مگر عدالت اسے پیشی در پیشی کے مکروہ اور ابلیسی چکر میں ڈال کر دال دلیے سے بھی محروم کردیتی ہے، بھوک اور ذہنی اذیت سے تنگ آکر مظلوم مارکٹ ریٹ سے بھی انتہائی کم نرخ پر اپنی جائداد یا رقبہ بیچ دیتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عدالتوں کو ان معاملات کا علم ہے مگر وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور معاشرہ تباہی کے دہانے تک آپہنچا ہے۔