کشمیر کونسل ،آتشِ گل کے نکھار کا موسم؟

433

عارف بہار

وقت کا دھارا بہتا اور بہتا ہی چلا جاتا ہے کہ یہی اس کا مقدر، متعین اور معین کام ہے۔ اسی کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے کہ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ آزادکشمیر میں بھی وقت کا دھارا بہہ گیا ہے اور کشمیر کونسل جیسے ادارے اور وائسرائے جیسے کردار اب قصۂ پارینہ بننے کو ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے نوآبادیاتی دور کی جیلیں، عمارتیں، کردار تاریخ کے عجائب خانے میں فقط عبرت حاصل کرنے کے لیے سجے اور دھرے رہ جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سترہ سو ملازمین کی فوج کو اپنے اندر سمائے کشمیر کونسل کی دیوہیکل عمارت دھڑام سے آن گری اور پیچھے سے آزادکشمیر میں ایک نئی صبح کا سورج طلوع ہوتا چلا گیا۔ خوش حالی، انصاف، میرٹ، برابری اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کی کرنوں نے پورے سماج کو منور کردیا۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ گئیں، تمام ترقیاتی بجٹ دیانت داری سے زمین پر لگنا شروع ہو گیا۔ کرپشن اور کمیشن سے گلو خلاصی مل گئی۔ برادری ازم کا بُت کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا۔ ایسا ہر گز نہیں کیوں کہ سماج بھی وہی ہے اور قیادت بھی وہی البتہ درست سمت میں یہ ایک طویل، تھکا دینے والے سفر کا پہلا قدم ضرور ہے۔
ریاست پاکستان اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ دوراہے میں اپنے لیے نیا راستہ منتخب کر چکی ہے۔ وہ راستہ کیا ہے؟ اس کی منزل کیا ہے؟ آزادکشمیر کا مستقبل بھی انہی سوالوں سے وابستہ ہو چکا ہے۔ جب پاکستان دوراہے پر کھڑا تھا تو آزادکشمیر کے مستقبل کے حوالے سے دو آپشن نظر آتے تھے۔ آزادکشمیر کے متصل علاقوں جہلم، گجرات اور ہزارہ کے درمیان پیسٹری کی صورت تقسیم یا پھر نیم خود مختاری کی راہ پر سفرِمسلسل۔ پاکستان نے عالمی طاقت کی طرف سے اپنے لیے نیپال، بھوٹان، بنگلا دیش جیسے کردار کا ایجنڈا پھاڑ کر اپنی طاقت اور حجم سے زیادہ اپنے پوٹینشل کے ساتھ زندہ رہنے کا فیصلہ کر لیا اور اس پر اندرونی اور بیرونی عتاب صرف اسی لیے ٹوٹ پڑے ہیں۔ پاکستان دنیا کی قیادت کو مغرب سے مشرق کی طرف لانے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ اس کوشش کے تین مرکزی کرداروں میں ایک ہے۔ اس کردار کا تقاضا ہے کہ اسے خود احتسابی کا خود کار نظام اپنانا ہے۔ ایک شفاف نظام، تیزی سے عوام تک ثمرات پہنچانے والی جمہوریت، مضبوط معیشت اور مضبوط اور باوقار صوبائی یونٹس جن میں کوئی خود کو کمتر یا غلام نہ سمجھے۔ فاٹا سے گلگت اور آزادکشمیر تک پاکستان کے آئین میں خصوصی مقام رکھنے والے علاقوں سمیت چھوٹے کمزور یونٹس تک ہر ایک تعلق نظرثانی کے عمل سے گزرنے کو ہے کیوں کہ انگریزی محاورے کے مطابق یہ ’’ہاؤس ان آرڈر‘‘ کرنے کا لمحہ ہے۔ بدلتے ہوئے وقت اور نئے تقاضوں، حالات اورضرورتوں کی کرنوں سے آزادکشمیر کو بھی منور ہونا ہے۔
آزادکشمیر کی موجودہ نسل خوش قسمت ہے کہ متصل علاقوں کا ایندھن بننے سے بچ گئی اور درجہ بہ درجہ، منزل بہ منزل آگے بڑھنے کی راہ اس کا مقدر ٹھیری۔ آزادکشمیر میں ایک نئے نظام کی بنا پڑنے کو ہے۔ آزاد کشمیر میں عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے اور سر اُٹھا کر چلنے والے محاورے اور مطالبات اسلام آباد سے پنڈی تک سنے جا چکے ہیں اور قطرہ قطرہ پڑنے والے پانی سے پتھر کی سل گھس جانے کو ہے۔ آزاد کشمیر کے عوام کے اسلام آباد اور راولپنڈی کی راہ داریوں میں ایک قابل ذکر حلقے کو اپنی بات بڑی حد تک سمجھانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ شاید ہم تاریخ سے یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ حسین شہید سہروردی کی زبان نہ سمجھ کر ہم نے شیخ مجیب کی راہ ہموار کی تھی اور راجا فاروق حیدر کی بات نہ مان کر ہم خود ساختہ جلاوطنی میں بیٹھے شوکت کشمیری کو غیر متعلق سے متعلق بنا سکتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے عوام کے لیے اختیار اور وقار کی خواہش اور مطالبے کو غداری سمجھے کا ذہن اب بڑی حد تک تبدیل ہوگیا ہے۔ آئین، قانون، مقدس دستاویزات سہی مگر قوموں کو قابل احترام، پر تقدس اور باوقار بنانے میں کتابوں اور کاغذوں کے بجائے اصل کردار جیتے جاگتے انسانوں کا ہوتا ہے جنہیں قیادت کہا جاتا ہے۔ یہ لیڈر شپ ہوتی ہے جو کسی محدود سے خطے چھوٹی سی آبادی کو اس تنگنائے سے نکال کر وسیع کردار کا حامل بناتی ہے۔ قیادت نہ کسی خطے کا جغرافیہ تبدیل کرسکتی ہے اور نہ آبادی کو کسی فرمان شاہی کے ذریعے بڑھا سکتی ہے البتہ وہ اپنی فہم وفراست کے ذریعے کسی کم علاقے اور آبادی کو حد درجہ اہم بنا سکتی ہے۔
ریاست جموں وکشمیر کی غیر فطری تقسیم کے نتیجے میں قائم ہونے والے آزاد کشمیر کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ یہ پوری ریاست جموں و کشمیر کے ڈھائی اضلاع پر مشتمل تھا جو غیر فطری تقسیم کے باعث ریاست کے اصل مراکز سے کٹ کر رہ گیا تھا۔ پہاڑی اور دشوار گزار ہونے کی وجہ سے اس کی حالت ناقابل حکمرانی والے علاقوں جیسی تھی۔ بہت مشکلات اور تجربات سے گزر کر یہ خطہ حکمرانی کے قابل ہوا۔ پہاڑی علاقے میں ایک متمدن زندگی کا آغاز ہوا۔ عملی ترقی بہت ہو چکی اور بہت کچھ ہونا ابھی باقی ہے مگر ذہنی ترقی کا عمل رک سا گیا ہے۔ دیانت، میرٹ اور انصاف اس معاشرے سے گویا کہ روٹھ ہی گئے ہیں۔ حکمران سے رعایا اور فرد سے اجتماعیت تک دیانت کا احساس عنقا ہے۔ اختیار اور طاقت جہاں خوش کن اور پُر از تفاخر احساس کا نام ہے وہیں یہ قوموں اور قیادتوں کے لیے تنی ہوئی رسی پر سفر بھی ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر کا خطہ اور اقتدار کے لحاظ سے ایک لمبی قلانچ بھرنے کو تیار ہے مگر اس نئے نظام میں احتساب کا مضبوط نظام، بہتر جمہوری روایات اور انصاف کو راہنما اصول بنانا ہوگا۔ آزاد کشمیر کی قیادت کو خود کو اختیار کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ حالات کے بدلے ہوئے طوفان میں کشمیر کونسل سمیت اتفاق رائے کی ملمع زدہ مگرحقیقت میںیک طرفہ فیصلوں کی ہر علامت خس وخاشاک کی مانند بہہ جانے کو ہے مگر یہ سوال باقی ہے کہ کیا ہم اپنے تعصبات اور عیاشیوں کے منجمد اصول اور روایات ترک کرکے اپنے طور طریقے بدلنے پر آمادہ ہیں؟ اسی مقام کے لیے کہا گیا ہے کہ
آئینِ نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں اختیار اور اقتدار کی غیر معمولی آزادی مل جائے اور ہم آزادی اور اختیار کا بوجھ اُٹھانے کے بجائے اس کے نیچے دب کر رہ جائیں۔