شاہد خاقان عباسی کا ’’مس فائر‘‘

322

کیا عجب تماشا ہے کہ عدلیہ کو گالی دینا مقبول لہر اور اس لہر پر سوار ہونے کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے۔ جو اس لہر پر سوار ہونے سے انکار کردے اس کے عہدے کو مفلوج سمجھا اور جانا جاتا ہے۔ جب تک وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی عدلیہ کے احترام کی بات کرتے رہے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف ان کے عہدے کو مفلوج اور ناکارہ سمجھتے تھے اور نواشریف اور ان کے حلقہ اثر میں اپنے مفلوج ہونے کے تاثر کو دھوڈالنے کے لیے ہی شاہد خاقان عباسی نے بھی مقبول بن جانے کا فیصلہ کرلیا۔ شومئی قسمت شاہد خاقان عباسی اس مقبول لہر پر سوار نہ ہوسکے اور عدالت نے میاں نوازشریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل قرار دے کر بحث اور حالات کا رخ ہی موڑ دیا۔ عدلیہ کے احترام کا درس دیتے دیتے شاہد خاقان عباسی ایک روز اچانک قومی اسمبلی میں نمودار ہوئے اور ایک دھواں دار خطاب میں انہوں نے عوام، عوامی نمائندوں اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور تقدس کی باتیں کیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں ارکان پارلیمنٹ کو چور، ڈاکو اور مافیا جیسے الفاظ کہنے کے معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔ اس معاملے کو پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے عدالتی مقدمے میں ججوں کے ریمارکس کو عدلیہ اور مقننہ کا معاملہ بنانے کے لیے ایک کارڈ پھینک دیا تھا۔
سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف تو عدلیہ سے شکوہ کناں تھے اور اس کا اظہار وہ بند کمروں کے بجائے عوامی جلسوں میں کرتے چلے آرہے ہیں۔ اپنے اس شکوؤں بھرے بیانیے کو انہوں نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا عنوان دے رکھا ہے۔ سابق وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ اب موجودہ وزیر اعظم بھی اس ’’راگ‘‘ میں شامل ہو گئے ہیں۔ مقننہ کی دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی فی الحال حالات کے جبر کی وجہ سے حکمران جماعت سے فاصلہ پیدا کر چکی ہے۔ آصف زرداری اس وقت ’’میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے‘‘ کے مصرعے کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کا دل کہیں اور دھڑک رہا ہے اور دماغ کہیں اور ہے۔ آصف زرداری کی اس پالیسی کا عملی نمونا سید خورشید شاہ ہیں جن کی باتوں سے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اصل میں کس کی اپوزیشن ہیں۔ اپنی اس ڈھلمل سی پوزیشن کے باجود وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے عدلیہ مخالف بیان پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے تھوڑا کھل کر کہا کہ پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے والے سیاست دان خود ہیں کیوں کہ ہم نے پاناما معاملے کو عدلیہ کے بجائے پارلیمنٹ میں حل کرنے کا موقف اپنایا تھا مگر حکومت خود اس مقدمے کو عدالت کے سامنے لے گئی۔ اس طرح انہوں نے خود کو مسلم لیگ ن کی عدلیہ بمقابلہ مقننہ حکمت عملی سے الگ کیا۔ پارلیمان کی تیسری اہم جماعت پی ٹی آئی تو پہلے ہی منقارزیر پر ہے اور میاں نوازشریف کو اس حال تک پہنچانے میں کلیدی کردار کی حامل ہے بھلا وہ اس مہم میں مسلم لیگ ن کا ساتھ کیوں کر دے سکتی تھی؟۔
اپوزیشن کی اس تقسیم کے باعث میاں نواز شریف سے عدلیہ کی شکایتوں اور حکایتوں کا معاملہ عدلیہ مقننہ تنازع نہ بن سکا البتہ اس معاملے کا رخ نوازشریف بمقابلہ عدلیہ سے تبدیل ہو کر ن لیگ بمقابلہ عدلیہ ہو سکتا تھا اس کا کیا کیجیے کہ اس تصور کی راہ میں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان جیسے معتدل مزاج اور پسندیدہ لوگ بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف کو تو عدالت سے عدالتی ’’احترام‘‘ کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل ہو چکا ہے بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان تو انہیں باقی ن لیگ کو عدالتی احترام سکھانے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ ایسے میں عدلیہ نوازشریف بیانیہ عدلیہ مسلم لیگ ن معاملہ بننے سے بھی رہا۔ جو عدلیہ مخالف چہکاریں پہلے مسلم لیگ ن کے شجر پر دانیال اور طلال کی صورت میں سنائی دے رہی تھیں اب کم کم سنائی دینے لگی ہیں۔ اب عدلیہ مخالف موقف کو مقبول لہر بنانے کی مہم آخری حدوں کو پہنچ رہی ہے۔ اب صرف عملی محاذ آرائی اور پنجہ آزمائی باقی رہ گئی ہے۔ یہ ماحول تو ملک کا موافق نہیں رہا وگرنہ یہ کام بھی ہو چکا ہوتا۔ اب عدلیہ مخالف موقف کو مقبول لہر سمجھنے والے غلطی کریں گے اور شاہد خاقان عباسی کو بیٹھے بٹھائے اس مہم میں شریک ہونے کی کیا سوجھی؟ ہو نہ ہو اس کی وجہ میاں نوازشریف کی طرف ان کے عہدے کو مفلوج قرار دینے کا طعنہ بنا ہو۔ وہ مفلوج تھے یا نہیں یہ تو نوازشریف ہی بہتر جانتے ہوں گے مگر وہ مقبول نہ ہوسکے۔
ملک میں اداروں کے درمیان محاذ آرائی کا ماحول بنانے والے اچھا نہیں کر رہے۔ عدالت، فوج اور پارلیمنٹ سب ملک کے معزز اور ناگزیر ادارے ہیں۔ ان اداروں کی اپنی اہمیت ہے اور کسی بھی ادارے کے بغیر ملک چل نہیں سکتا۔ فوج کے بغیر ملکی دفاع کا تصور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح حکمرانی کا سب سے اچھا طریقہ عوامی شراکت اور شرکت ہے اور یہ کام پارلیمنٹ ہی بہتر انداز میں کر سکتی ہے جب کہ عدلیہ کی مضبوطی کے بغیر معاشرے جنگل کے قانون کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ تمام اداروں کو اپنے دائروں میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ انصاف اور قانون کو بھی اپنا راستہ بنانا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ادارہ جاتی کشمکش کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے کسی فرد کی ناگزیریت کا فلسفہ ترک کرکے آگے بڑھا جائے۔