شادی کے روحانی ایفیکٹ

386

صاحبو! کیا تماشا ہے شادی عمران خان نے کی ہے رخصتی نواز شریف کی ہوگئی۔ عمران خان قسمت کے سکندر ہیں۔ کرکٹ کھیلنے گئے جمائما لے آئے۔ انٹرویو دینے گئے ریحام خان لے آئے اور اب دم کروانے گئے تو پیرنی لے آئے۔ کچھ لوگ عمران خان کی شادیوں پر معترض ہیں کہ ؂
ایک شادی تو ٹھیک ہے لیکن
ایک دو تین چار حد کردی
ایسے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے۔
چیز ملتی ہے ظرف کی حد تک
اپنا چمچہ بڑا کرے کوئی
یہ اپنے سید ضمیر جعفری کا قول ہے۔ اس ضمن میں ہلکی سی تضمین کے ساتھ فراق گورکھپوری کی بھی سنیے
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
شادی توفیق ہے گناہ نہیں
بعض لوگوں کے لیے پہلی شادی ایک اسٹارٹ ہوتا ہے جیسے بچپن میں سائیکل سیکھتے ہوئے گرتے پڑتے قینچی سائیکل چلاتے ہیں پھر ایسے رواں ہوتے ہیں کہ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ عمران نے جمائما سے اسٹارٹ لیا تھا اس کے بعد ان کی روح شادی میں ایسی اٹکی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ’’رومیں ہے رخش نکاح کہاں دیکھیے تھمے‘‘۔ عمران خان کی شادیوں کی ایک وجہ اور ہے۔ ہم نے آج تک کسی خاتون کو انہیں عمران بھائی کہتے نہیں سنا۔ جس نے ڈالی بری نظر ڈالی۔ تیسرے نکاح میں عمران خان کی بہنوں اور بچوں نے تو شرکت نہیں کی۔ البتہ بشریٰ بیگم کے بچے موجود تھے۔ ایک ماں نے اپنے بیٹے سے پوچھا ’’بیٹا اپنی شادی میں ماما کو بلاؤ گے‘‘ بیٹے نے جواب دیا ’’نہیں‘‘ ماں نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں نہیں بلاؤ گے؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا ’’آپ نے اپنی شادی پر مجھے بلایا تھا؟‘‘ بشریٰ بیگم کے بچے ان سے یہ شکایت نہیں کرسکتے۔
سمجھ داری کا ایک معیار یہ ہے کہ بندہ کتنا عرصہ کنوار پنے میں گزارتا ہے۔ عمران خان نے ایک طویل عرصہ سمجھ داری میں گزارا، اب تو وہ شادی پہ شادی کررہے ہیں۔ اس میں ان کا قصور نہیں۔ ساٹھ برس کے بعد آدمی سٹھیا ہی جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس عمر میں مرد کو بیوی کی نہیں حکیموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن عمران سخت کوش ہیں۔ روزانہ دو گھنٹے کڑی ورزشیں کرتے ہیں۔ چالیس پینتالیس سے اوپر کے نہیں دکھتے۔ سو ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے۔ البتہ ایک مسئلہ ہے۔ ان کا نکاح مفتی سعید صاحب نے پڑھایا ہے۔ چائنا کی چیزوں اور مفتی سعید صاحب کے پڑھائے گئے نکاح میں ایک قباحت ہے۔ دونوں کی کوئی گارنٹی نہیں۔ جلد ٹوٹ جاتی ہیں۔ مفتی سعید صاحب میں ایک خوبی اور ہے۔ ایک جوڑے کا نکاح دومرتبہ پڑھاتے ہیں۔ ایک جنگ گروپ کی خبر سے پہلے ایک جنگ گروپ کی خبر کے بعد۔
جس عمر میں عمران نے شادی کی ہے آدمی بچوں کی شادی یا پوتے پوتیوں کی مٹھائی کھارہا ہوتا ہے۔ شادی سے زیادہ آخرت کی سوچتا ہے کہ چل چلاؤ ہے۔ کسی بوڑھے نے ایک سولہ سال کی لڑکی سے شادی کرلی۔ بیٹے نے سمجھایا ’’اباجی آپ نے سولہ سال کی لڑکی سے نکاح کرلیا۔ زندگی کا کیا بھروسا ہے؟‘‘ بوڑھے نے جواب دیا ’’پتر فکر نہ کر یہ مرجائے گی تو دوسری کرلوں گا۔‘‘ یہ بھی شکر کی بات ہے کہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے کرتے عمران خان بابوں کے ہتھے نہیں چڑھے۔ ایک پیرنی کے عقد میں آگئے۔ جس شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں اس کی صحت اور بینک بیلنس کی صورت حال نازک ہوتی ہے۔ عمران کی صحت کے بارے میں تو ہم بتا چکے البتہ بینک بیلنس کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ لودھراں کے الیکشن کے بعدان کی اے ٹی ایم مشین کا منہ اترا ہوا ہے۔ عمران سمجھتے ہیں کہ انہیں عورتوں کی بہت پہچان ہے۔ پہلی مرتبہ انہوں نے اس بات کا ثبوت دیا ہے۔ رشتوں کے انتخاب میں خواہ وہ لڑکے کا انتخاب ہو یا لڑکی کا دین داری کو ترجیح دینا چاہیے۔
کسی مفکر نے کہا تھا ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘ دیکھیے عمران کی تیسری شادی کے بعد اس ملک کو کیسی قوم ملتی ہے۔ دوسری اور تیسری شادی میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ آدمی بیوی سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’آپ میری زندگی میں آنے والی پہلی خاتون ہیں‘‘۔ ایک جامع تحقیق کے مطابق یہ جملہ عورتوں کو سب سے زیادہ مسرور کرتا ہے۔‘‘ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجھے کسی کی قربت میں ایسا لطف نہیں ملا۔ تجربہ کار بیویاں اس جملے کو اپنی جیت تصور کرتی ہیں۔ نکاح کی تقریب میں محترمہ بشریٰ نے جس طرح پردہ کیا ہے ہمیں تو بہت اچھا لگا ہے۔ پردہ عورت کی اور ڈاڑھی مرد کی پہچان ہے۔ البتہ اس پردے سے سیکولر اور لبرلز کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ محترمہ بشریٰ کے اس رویے سے عیاں ہے کہ مستقبل میں عمران خان نت نئے فیشن کے ملبوسات، ہیئر اسٹائل، پارلرز کے خرچوں اور ایسے بہت سے واہیات اخراجات سے محفوظ رہیں گے۔ فیض نے کہا تھا ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔‘‘ پہلی اور دوسری تیسری محبت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پہلی بیوی شوہر کو پٹتے دیکھتی ہے تو اپنے آپ کو اس کے اوپر گرادیتی ہے اور اس کو لگنے والی چوٹیں خود سہتی ہے۔ لیکن دوسری اور تیسری بیوی دور کھڑے ہوکر لوگوں کو آواز دیتی ہے۔ ایک بیوی نے اپنے شوہر کو چوروں سے پٹتے ہوئے دیکھا تو سامنے والے پڑوسی کو مدد کے لیے پکارا ’’بھائی ذرا دوڑ کر آنا میرے شوہر کو چار آدمی پیٹ رہے ہیں۔‘‘ پڑوسی سویا ہوا تھا۔ اس نے ذرا سی آنکھ کھولی اور لیٹے لیٹے بولا ’’چار آدمی کم ہیں جو مجھے بلارہی ہو۔‘‘
سنا ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مسائل کے حل اور روحانی فیض کے حصول کے لیے محترمہ بشریٰ کے پاس جاتے تھے۔ جن دنوں آتش جوان تھا عمران خدا سے اتنا نہیں ڈرتے تھے جتنا شادی کرنے سے ڈرتے تھے۔ اب ترتیب الٹ گئی ہے۔ وہ خدا سے ڈرنے اور شادی سے نہ ڈرنے میں دلیر ہوگئے ہیں۔ عمران خان کا بشریٰ بیگم سے نکاح اگر ضرورت رشتہ کے کسی اشتہار کا مرہون منت ہوتا تو اس کی عبارت کچھ اس طرح ہوسکتی تھی ’’ایک سابقہ کر کٹ کپتان اور حالیہ سیاست دان کے لیے کسی ایسی خاتون کی ضرورت ہے جو اس کے لیے وزارت عظمیٰ کے دروازے کھلوا دے۔ شادی صرف ایسی خاتون سے کی جائے گی جو اپنے روحانی کمالات کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اس کی وزارت عظمیٰ کنفرم کراسکے۔ کنواری، بیوہ اور طلاق یافتہ اعتماد سے رجوع کریں۔‘‘ بشریٰ بیگم کے روحانی کمالات کے ہم تو ابھی سے قائل ہوگئے ہیں۔ عمران خان شادی انجوائے کررہے ہیں اور دوبارہ نااہلی کے بعدنواز شریف اپناسر پکڑے بیٹھے ہیں بقول فیض:
’’وہ جارہاہے کوئی شب غم گزار کے‘‘