مغربی دنیا اس وقت پاکستان اور بھارت کے دو الگ پیمانے اپنائے ہوئے ہے۔ بھارت کی کج ادائی بھی ان کے لیے حسن ہے اور پاکستان کا حسن بھی ان کے لیے بدصورتی ہے۔ اس کے لیے وہ اپنی اصطلاحات کو نئے معانی اور مفاہیم عطا کرتے ہیں۔ انتہا پسندی کی اصطلاح کو ہی لیں یہ گویا کہ مغرب کی طرف سے پاکستان کے ساتھ چپکایا جانے والا اسٹکر ہے مگر بھارت میں ہونے والی کوئی بھیانک سرگرمی بھی اس اصطلاح کی زد اور دائرے میں نہیں آتی۔ یہ دو پیمانے ایک فریق کو غیر ضروری طور پرپُر اعتماد بناتے ہیں وہیں دوسرے فریق کو دیوار سے لگا دینے کا باعث بنتے ہیں۔ مغرب کے ان دوہرے میعارات کو حال ہی میں دو خبروں نے کچھ مزید گہرا کیا پہلی خبر کا تعلق بھارت کی حکمران طبقے کا حصہ سمجھی جانے والی انتہاپسند ہندو تنظیم کے لیڈر کے دعوے سے ہے جبکہ دوسری خبر کا تعلق پاکستان سے ہے کہ کس طرح مغربی بلاک نے پاکستان کو دہشت گردوں کی مدد روکنے میں ناکامی کا سزاوار ٹھیرانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔
بھارت کی سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے بہار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ہنگامی حالت میں بڑی تعداد میں فوج کھڑی کرنی ہو تو انڈین فوج کو اس میں بہت وقت لگے گا مگر آر ایس ایس تین دن میں لاکھوں کی فوج کھڑی کر سکتی ہے۔ آر ایس ایس سخت گیر ہندو تنظیم ہے جو ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کی علمبردار ہے۔ بھارت کے ہزاروں فسادات میں اس تنظیم کا ہاتھ رہا ہے جن میں لاکھوں مسلمان، دلت اور عیسائی وسکھ اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس سے بھی خوفناک بات یہ کہ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کی مادر تنظیم ہے۔ نریندر مودی اس تنظیم کے فکر و فلسفے سے راہنمائی لیتے ہیں۔ اس طرح آر ایس ایس بھارت کی حکمران کلاس میں بالواسطہ طور پر شامل ہے۔ تین دن میں لاکھوں کی تعداد میں فوج کھڑی کرنے کا دعویٰ کئی
سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے بھارت کے حکومتی نظام کی فکری سرپرست جماعت کے پاس لاکھوں تربیت یافتہ لوگ موجود ہیں جنہیں مختصر وقت میں باقاعدہ فوج کی شکل دی جا سکتی ہے۔ ایک ایسے خطے میں جہاں اقلیتیں پہلے ہی اکثریت کے جبر تلے کراہ رہی ہیں اور اقلیتوں کے خلاف نفرت اکثر پرتشدد رنگ اختیار کر رہی ہے۔ اس قدر بڑی نجی فوج کھڑی کرنے کا اعلان اور دعویٰ ان قوتوں کے لیے لمحہ فکر ہے جو دہشت گردی کے خلاف کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ جو پاکستان اور دوسرے مسلمان ملکوں پر دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کی افسانہ طرازی کر رہے ہیں اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گرد گروپوں کے ہاتھ لگنے کا واویلا کرتے ہیں۔ ان قوتوں کو بھارت میں پردے کے پیچھے ایک بڑی اور پرائیویٹ فوج کا پوٹینشل اور خطرہ دکھائی نہیں دے رہا۔
بھارت میں ایک سخت گیر اور ہندو قوم پرست جو باضابطہ تشدد میں ملوث رہی ہو ریاستی وسائل اور طاقت کے قریب پہنچنا پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مغربی بلاک کے لیے یہ خبر محض ایک افسانہ اور لطیفہ ہے۔ اسی دوران فرانس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے نام سے ایک اور عالمی فورم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی مغربی ملکوں اور ان کے محبوب نظر بھارت کی کوشش سردست ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ اس فورم کو پاکستان کو دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے میں ناکام ملکوں کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کے لیے استعمال ہونا تھا۔ امریکا نے پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کی قرارداد پیش کی تھی اور برطانیہ فرانس اس کے متحرک حامی تھے جب کہ پس پردہ کردار بھارت کا تھا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الحکومتی فورم ہے۔ جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے آزاد کیا جائے اور اس مقصد کے لیے انضباطی، قانونی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔ اس تنظیم کے 35ارکان میں امریکا، بھارت، برطانیہ اور چین وغیرہ شامل ہیں جب کہ پاکستان اس فورم کا رکن نہیں۔ اس تنظیم کا اجلاس ہر تین سال بعد ہوتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ متعلقہ ملکوں کی تنظیم کی سفارشات پر کس حد تک عمل کیا ہے۔ تنظیم کے اجلاس میں اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے نمائندے بھی شریک ہوتے ہیں۔ واچ لسٹ میں آنے کا اثر کسی بھی ملک کے مالیاتی نظام اور اس کی ساکھ پر بہت منفی انداز میں پڑتا ہے۔ اس لیے امریکا نے پاکستان کو معاشی مشکلات کا شکار اور اس کی ساکھ کو خراب سے خراب تر کرنے کے لیے اس بار اپنا پورا زور صرف کیا تھا۔ پاکستان نے اس مہم کو ناکام بنانے کے لیے تنظیم کے ان ملکوں سے رابطے کیے تھے جو پاکستان دوست سمجھے جاتے ہیں جن میں چین اور سعودی عرب جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان ملکوں کی مخالفت کی وجہ سے امریکا اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا اور قرارداد کی منظوری کے لیے درکار اتفاق ممکن نہ ہوا۔ ایک اخبار نے اسے امریکا سے سعودی حکمرانوں کا پہلا اختلاف رائے کہہ کر خاصی اہمیت بھی دی، قرارداد کے موخر ہونے کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ہم ان تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے امریکی سرپرستی میں پیش ہونے والی قرارداد کو منظور نہیں ہونے دیا اور فورم نے ایک اور رپورٹ اور مزید وضاحت طلب کرلی۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی فوجی شکست اور سیاسی ناکامیوں سے فرسٹریشن کا شکار ہے۔ اس کے خیال میں افغانستان میں امریکا کی گردن پھنسنے کا اصل محرک پاکستان ہے۔ اس لیے وہ پاکستان کو ہر فورم پر بدنام کرنے کے ساتھ اس کے ازلی دشمن کو خطے کو چوکیدار اور چودھری بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ امریکا کی بھاری غلطی ہے۔ اس غلطی میں وہ افغانستان میں روز بروز حالات کے بھنور میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، حقوق انسانی کا عالمی کمیشن، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ہر وہ فورم کو جہاں امریکا کا اثر رسوخ مسلمہ ہے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں مگر پاکستان ہر جال کو توڑتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں سبکی کے بعد بھی یہ کوششیں ختم نہیں ہو ں گی کیوں کہ جب تک امریکیوں کو درد کی ٹیسیں محسوس ہوتی رہیں گی وہ پاکستان کی چٹکی کاٹتے رہیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے لیے مغرب کے دو الگ پیمانے اس تہذیب میں پنہاں تضادات کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہیں۔