امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ہمہ جہتی بگاڑ کا سلسلہ جاری ہے اور صاف لگتا ہے امریکا پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں قربانی کا بکرا بنانے کی پالیسی پر اسی طرح گامزن ہے جیسا کہ ویت نام کی جنگ میں کمبوڈیا کو بنایا گیا تھا۔ روس، چین اور کمیونسٹ بلاک سے امریکا اس شکست کا بدلہ لینے سے قاصر تھا اسی لیے ویت نام میں اپنی جنگی حکمت عملی کی ناکامی کی تمام ذمے داری ہمسایہ ملک کمبوڈیا پر عائد کرکے اسے بربادی کا نشان بنا کر رکھ چھوڑا گیا تھا۔ افغانستان میں اپنی مسلسل ناکامیوں کا ٹھنڈے دل ودماغ سے تجزیہ کرنے کے بجائے امریکی اب تک نائن الیون کے ماحول اور مزاج سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ اس لیے پاکستان کے خلاف دنیا کے ہر محاذ اور فورم پر ایک مقدمہ گھڑا جا رہا ہے۔ عالمی اداروں میں پاکستان مخالف فضاء بنائی جا رہی ہے۔ پاکستان کہیں عالمی فورم پر اپنا مقدمہ لے کر پہنچے تو اسے کمزور کرنے کے لیے تمام حربے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ حد تو یہ کہ امریکا اور مغربی لابی جو باتیں چین اور روس کے بارے میں کہہ نہیں پاتیں وہ پاکستان کا نام لے کر کہی جاتی ہیں۔ پاکستان کو تخت�ۂ مشق بنانے کی اس مہم میں اعتدال اور توازن کے سارے سبق اور اصول فراموش کیے جا چکے ہیں۔ اس مہم کا ایک اور شاخسانہ پاکستان کے قریب مار کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ میں ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے تھوڑے فاصلے تک مار کرنے والے مخصوص نوعیت کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق فکر مند ہے اور یہ ہتھیار خطے میں جوہری جنگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ امریکی انٹیلی جنس چیف ڈین کوٹس نے کانگریس کی کمیٹی میں پیش کی ہے۔ رپورٹ میں امریکا کو درپیش عالمی خطرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پاکستان نے امریکا کی اس رپورٹ کو افسوسناک قرار دے کر مسترد کیا ہے۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے لائی گئی جب امریکا پاکستان کے خلاف ایک اور عدالت میں ایک اور مقدمہ گھڑنے میں مصروف ہے۔ یہ مقدمہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کودہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکامی پر واچ لسٹ میں ڈالنے کی قرارداد ہے۔ جہاں امریکا اور برطانیہ اس قرار داد کی منظوری کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ اس قرارداد کی منظوری کا پاکستان کے مالیاتی اداروں سمیت اس کی ساکھ پر بھی منفی اثر ہوگا۔ اس لحاظ سے امریکا کی قرارداد اور انٹیلی جنس کی رپورٹ کا بیک وقت منظر عام پر آنا محض اتفاق نہیں بلکہ یہ دونوں مقدمات کو باہم مضبوط اور مربوط کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق امریکا کی یہ رپورٹ قطعی نئی نہیں۔ حقیقت تو یہ کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کبھی مہربان نہیں رہا۔ اس پروگرام کو بدنام کرنے کے ’’اسلامی بم‘‘ اور اس کے علامتی کردار ڈاکٹر قدیر خان کو ’’مسٹر نیوک‘‘ جیسے القاب سے نوازا گیا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ہی اس طویل اور اعصاب شکن جنگ میں پاکستان کی خدمات کا پہلا صلہ پریسلر ترمیم کی شکل میں دیا گیا جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بنیاد بنا کر پابندیاں عائد کی گئیں۔ وہیں امریکی صدر جو ان قراردادوں پر کئی سال تک ویٹو کرتا رہا سرد جنگ ختم ہوتے ہی قرارداد کو من وعن قبول کرنے پر مجبور ہوا۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے پاکستان امریکا کی ضرورت تھا اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ ضرورت پوری ہو چکی تھی۔
پاکستان اور بھارت کے ایٹمی پروگراموں کے بارے میں ہمیشہ امریکا کے دوہرے میعار رہے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے لیے امریکا کا ایک میعار ہے جبکہ پاکستان سمیت باقی مسلمان ملکوں کے لیے یہ میعار قطعی جدا رہا ہے۔ امریکا پہلے مجموعی طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرتا رہا ہے اب پاکستان کے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی مخالفت کو شعار بنالیا ہے۔ ان ایٹمی ہتھیاروں سے سوائے بھارت کے اور کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہتھیار بھارت سینٹرک ہیں اور ان کا مقصد بھارت کے کولڈ اسٹارٹ جنگی ڈاکٹرائن کو ناکام بنانا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کے تحت بھارت کی فوج پاکستان کے اندر داخل ہونے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔
پاکستان ساٹھ کلومیٹر دور مار کرنے والے نصر میزائلوں کے ساتھ اس کا سواگت کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے اور یہ بات امریکا کو کیسے گوارا ہو سکتی ہے اس کا اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت کسی سنجیدہ مشکل میں پھنس جائے اس لیے امریکا بین الاقوامی موافق ماحول کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ایک فضاء تیار کرنے میں مصروف ہے۔ پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ اس کے ایٹمی ہتھیار جنگ میں پہل کے لیے نہیں بلکہ جنگ روکنے کے لیے ہیں۔ اس دوٹوک موقف کے باجود امریکی ادارے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنا بغض چھپانے سے گریز نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکا اور بھارت کا پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں تو پھر انہیں نصر میزائل سے کیا پریشانی ہے؟۔