موازنہ !

148

ناصر حسنی

سانس زندگی کی علامت ہے، زندگی نہیں، زندگی بندگی سے عبارت ہے، قانون انصاف کی علامت ہے، انصاف نہیں، انصاف بروقت فیصلے کا نام ہے، قانون کو مکڑی کا جال نہیں ہونا چاہیے کہ کمزور پھنس جائیں اور طاقت ور جالے کو توڑ دیں۔ قانون ایسا شکنجہ ہوتا ہے جو مجرموں کو جکڑ لیتا ہے اور مظلوموں کے لیے دست شفقت بن جاتا ہے۔ عزت مآب جسٹس آصف سعید کھوسہ کا فرمان ہے کہ ججز اللہ کے حضور جواب دہ ہوتے ہیں اس لیے تمام فیصلے قانون کے مطابق ہونا چاہئیں۔ انہوں نے اس بات پر شدید دُکھ کا اظہار کیا کہ یہ تاثر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے جیلوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ کوئی بھی جج قانون کے خلاف نہیں جاتا۔ سوال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ جن ملزمان کو باعزت بری کرتی ہے، ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹ نے انہیں کس قانون کے تحت مجرم قرار دیا؟؟؟ اور غور طلب امر یہ بھی ہے کہ جن ججوں نے بے گناہوں کو سزائیں سنائیں عدالت عظمیٰ نے ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا؟؟؟ اگر عدالت عظمیٰ غلط فیصلے سنانے والے ججوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے تو کوئی بھی قانون کو خانوادہ بنانے کی جسارت نہ کرے۔
اصل خرابی یہی ہے کہ ججز ذاتی مفادات اور ذاتی تعلقات کے تحفظ کے لیے اپنی مرضی کے فیصلے سناتے ہیں اور پھر اپیل در اپیل کا ابلیسی پہیہ چلایا جاتا ہے جو کئی نسلوں کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے جسٹس صاحبان مہذب ممالک کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے فرماتے ہیں، مہذب ممالک میں جب کسی گروپ یا فرد کے درمیان کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو وہ لوگ آپس میں معاملات طے کرلیتے ہیں مگر ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ وہاں گنگا ہوتی ہی نہیں پھر اُلٹی یا سیدھی کیسے بہہ سکتی ہے، یہاں ظالم مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا۔ مہذب ممالک میں عدالتیں اس لیے باوقار ہیں کہ وہاں پیشی پیشی کا مکروہ کھیل نہیں کھیلا جاتا۔ نہ لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسایا جاتا، نہ پیشی ملتوی
کرنے کی روٹین ہے۔ عادل اعظم آپ کا یہ فرمان بہت پرانا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب اور حسب حال بھی ہوگا کہ آپ ایسے احکامات متعدد بار صادر فرما چکے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کی نوبت اس لیے نہیں آتی کہ عدلیہ جج صاحبان سے جواب طلبی کی طلب گار ہی نہیں۔ حکم دے کر بھول جانے کو ذمے داری سمجھ لیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ محترم جسٹس سید منصور علی شاہ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہمارے جج صاحبان کام کر کر کے ہلکان ہوگئے ہیں مگر مقدمات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ محترم شاہ صاحب! جب کسی جج کے سامنے 150 مقدمات رکھ دیے جائیں تو وہ مقدمات سننے کے بجائے پیشی ہی دے سکتا ہے۔ اس تکلیف دہ صورت حال سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہر جج کو روزانہ دس مقدمات کا فیصلہ سنانے کا پابند کیا جائے تو مقدمات کا یہ انبار رفتہ رفتہ ختم ہوسکتا ہے۔
مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کا فرمان ہے کہ 2017ء میں اکیس لاکھ مقدمات نمٹائے گئے اور بارہ لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں اور بائیس لاکھ مقدمات الماریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں 62 ہزار افراد کے لیے ایک جج ہے، گیارہ ہزار جج ہوں تو فوری انصاف فراہم کیا جاسکتا ہے۔ وکلا ہڑتالیں نہ کرتے تو چالیس ہزار مقدمات مزید سنے جاسکتے تھے۔ جرمنی میں چار ہزار افراد کے لیے ایک جج ہے۔ عزت مآب جسٹس سید منصور علی شاہ کے فرمان سے انکار ممکن نہیں۔ پنجاب میں 62 ہزار افراد کے لیے ایک جج ہے اور جرمنی میں چار ہزار افراد کے لیے ایک جج ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جرمنی میں چار ہزار میں سے کتنے مقدمات جعلی ہوں گے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ چالیس بھی نہیں ہوں گے۔ جب کہ پنجاب میں 62 ہزار مقدمات میں پچاس ہزار سے زیادہ مقدمات جعلی ہوں گے اور ستم بالائے ستم یہ کہ جعل ساز سول کورٹ سے مقدمہ ہارنے کے بعد سیشن کورٹ اور یہاں سے سیشن کورٹ اور پھر سپریم کورٹ، معاف کرنا یہ نظام عدل نہیں عدل کو قتل کرنے کا عمل ہے۔ یہ کیسی شرم ناک بات ہے کہ ہمارے ہاں پیشہ ور مقدمے باز پائے جاتے ہیں، کیا کسی مہذب ملک میں ایسا ہوتا ہے؟؟؟ اس پس منظر میں ہم مہذب ممالک کی عدلیہ کا اپنے نظام عدل سے کیسے موازنہ کرسکتے ہیں؟؟؟۔