ایک اور قبائلی نوجوان کا قتل

361

نقیب اللہ محسود کے قاتل ابھی گرفتا رنہیں ہوئے تھے کہ قبائل کو باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایک اور قبائلی نوجوان احمد شاہ کی گولیوں سے چھلنی لاش حوالے کر دی گئی ہے جس پر پچھلے کئی دنوں سے باجوڑ میں اسی طرح کا زبردست احتجاج دیکھنے میں آ رہا ہے جس کا مظاہرہ پچھلے دنوں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل پر اسلام آباد میں کر چکے ہیں۔ نقیب اللہ محسود اور احمد شاہ کے قتل کا ایک افسوسناک اور تاریک پہلو جہاں ان دونوں قتل ہونے والوں کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہونا ہے وہاں ان دونوں واقعات کا روشنیوں کا شہر کہلائے جانے والے پاکستان کے سب سے بڑے اور تہذیبی و معاشرتی لحاظ سے مملکت خداداد پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت فروتر حیثیت کے حامل شہرکراچی میں وقو ع پزیر ہونا ہے۔ دوسری جانب یہ شاید نقیب اللہ محسود کے خون کا تقدس اور بے گناہی کا اثر تھا کہ جس نے اگر ایک طرف پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تو دوسری جانب یہ اندوہناک واقعہ دور دراز قبائلی علاقوں میں ریاستی ظلم و زیادتی کے ہاتھوں جام شہادت جوش کرنے یا پھر غائب کر دیے جانے والے سیکڑوں ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ریاستی ظلم و ستم سے بھی پردہ اٹھانے کا باعث بنا۔ اسی طرح نقیب اللہ محسود اور احمد شاہ کے قتل پر ہونے والے پر امن احتجاج نے جہاں قبائلی نوجوانوں کو پہلی دفعہ ان کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کیا وہاں قبائلی نو جوانوں کے اس پر امن اور منظم احتجاج نے دنیا پر یہ بات بھی عیاں کر دی کہ گنوار اور وحشی سمجھے جانے والے قبائل دنیا کے کسی بھی مہذب خطے کے لوگوں سے زیادہ مہذب، منظم اور پر امن احتجاج پر یقین رکھنے والے ہیں۔
واضح رہے کہ نقیب اللہ محسود اور احمد شاہ کے قتل پر احتجاج کرنے والے ہزاروں قبائلی نوجوان نہ تو کسی سیاسی جماعت کے پروردہ ہیں اور نہ ہی انہیں ورغلا اور بہلا پھسلا کر کسی لالچ کے تحت احتجاج پر مجبور کیا گیا ہے بلکہ یا سب نوجوان اپنی مرضی اور
اپنے خرچے پر ان دونوں قبائلی نوجوانوں کے قتل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ماضی میں مختلف جماعتوں کے خون ریز دھرنوں کے برعکس پختون قبائلی نوجوانوں کے حالیہ احتجاج کو ہر لحاظ سے ایک مثالی، پرامن اور منظم احتجاج قرار دیا جا سکتا ہے جس میں نہ تو کسی کی نکسیر پھوٹی اور نہ ہی کوئی ایک گملا ٹوٹا جس پر یہ ہزاروں نوجوان یقیناًمبارک باد اور تعریف کے مستحق ہیں البتہ اس احتجاج کو بعض سیاسی جماعتیں اور ان کے راہنما جس بے دردی اور بے رحمی سے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خواہش مند رہی ہیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہوگی۔ حیرت ہے کہ اس سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں وہ جماعتیں سب سے زیادہ پیش پیش اور آگے ہیں جن کی وجہ سے قبائل کے ساتھ پچھلی سات دہائیوں سے بالعموم اور پچھلے دس پندرہ سال سے بالخصوص امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور جن کے باعث قبائل اکیسویں صدی میں بھی ایف سی آر جیسے سیاہ اور ظالمانہ قانون کے تحت زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح جو لبرل فاشسٹ قوتیں قبائلی نوجوانوں کے اس پر امن احتجاج کو پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے اور اسے بدنام کرنے کی مذموم کوششیں کرتی رہی ہیں وہ بھی ہر لحاظ سے قابل مذمت ہیں۔ شاید ان ہی قوتوں کی شہہ اور منفی پروپیگنڈے سے مرعوب ہو کر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو بھی تمام تر سفارتی، اخلاقی اور ہمسائیگی کے آداب پس پشت ڈال کر پاکستان کے ایک خالصتاً اندرونی مسئلے پر اپنی سیا ست چمکانے کا موقع ہاتھ آیا۔ اس بحث کے تناظر میں توقع کی جانی چاہیے کہ قبائلی نوجوان بیداری کی اس لہر کو اور اپنی صفوں کو منظم رکھ کر کسی مخصوص سیاسی گروہ یا طبقے کے ہاتھوں ہائی جیک نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی کسی وقتی جھانسے میں آکر نقیب اللہ محسود شہید اور احمد شاہ شہید سمیت دیگر قبائلی شہداء کے قاتلوں کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزائیں دینے سمیت اپنے دیگر مطالبات سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے جب تک یہ تمام جائز مطالبات تسلیم کر نہیں لیے جاتے اور ان پر کیے گئے وعدوں کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا جاتا تب تک ان کا منظم اور پر امن احتجاج جاری رہے گا۔