حاکم بھی تو منصف بنیں 

355

معزول نا اہل وزیراعظم میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے احکامات جاری کیے ہیں کہ منصف بنو، حاکم یا مدعی نہیں اور قلم یا بندوق سے رائے نافذ کرنا بد ترین آمریت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت چلانا عوام پر چھوڑ دو اور مقدس اداروں کو سیاسی لڑائی میں مت گھسیٹو۔ عدلیہ کے لیے تحریک چلائی جائے تو جائز۔ ووٹوں کے تقدس کے لیے عوام میں جائیں تو غلط۔ ہوسکتا ہے کہ مریم نواز کی باتیں درست ہوں۔ لیکن وہ کون ہیں جو یہ احکامات جاری کررہی ہیں ۔ یہ سب کس کو کہہ رہی ہیں۔ شاید انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا کہہ رہی ہیں۔ ان کی ہر بات میڈیا میں اس لیے آرہی ہے کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ ہمارے میڈیا نے قوم کی بیٹی عافیہ کی آواز تو دبا دی بلکہ اس کا گلا گھونٹ دیا ہے ایک نااہل شخص کی بیٹی کی مہم چلا رہا ہے اگر مریم نواز کی مراد عدلیہ ہے اور یقیناًان کے مخاطب چیف جسٹس ہیں تو مریم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک منصف کو مظلوم کا مدعی تو لازمی بننا پڑتا ہے اگر کوئی کسی مظلوم کی آواز نہیں اٹھا رہا تو منصف کو مدعی بننا چاہیے اس لیے از خود نوٹس لیا جانا چاہیے اور آمریت صرف قلم اور بندوق سے ہی نہیں مسلط ہوتی۔ خاندانی بادشاہت سے بھی آمریت مسلط ہوتی ہے ۔ ان کی پارٹی کا نام نواز کے نام پر ہے۔ صدارت اپنے پاس نہیں تو بھائی کے پاس۔ وزیراعظم خود تو وزیر اعلیٰ بھائی۔ عوامی مہم چلانی ہے تو پارٹی کے سیاسی کارکنوں کو سائیڈ پر کھڑا کرکے بیٹی کو قیادت دیدی اسے بھی تو آمریت کہا جاتا ہے اورجب نواز شریف پارٹی کے صدرو ملک کے وزیراعظم تھے تو آمریت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ مسلط تھی کسی کی بات تک نہیں سنتے تھے۔ اب عوام تو یاد آرہے ہیں لیکن ذرا فاصلے سے۔ مریم نواز یہ بھی بتا دیں کہ جب حکمراں عدل و انصاف نہ کریں تو منصف کو کیا کرنا چاہیے ۔ اور حاکم عادل اور منصف نہ ہو تو اس کی کیا سزا ہونی چاہیے۔ پورے ملک کو صرف ایک شخص کی خاطر چکر میں کس نے الجھا رکھا ہے حاکم نے یا منصف نے۔