چھوٹی بڑی برائی

156

لودھراں کے حلقہ 154 کے الیکشن خاصے اعصاب شکن تھے، اہل بہاولپور بھی بہت بے چین تھے، سبھی کے لبوں پر یہی سوال تھا کہ کون جیتے گا؟۔ ہم سے یہ سوال کیا گیا تو ہم نے کہا تحریک انصاف جیتے یا مسلم لیگ نواز جیتے، ہمارے لیے دونوں صورتیں ہی باعث حیرت ہوں گی۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نشست مسلم لیگ کی ہے۔ وضاحت چاہی تو ہم نے کہا کہ عمران خان موروثی سیاست کے بت توڑنے کے دعوے دار ہیں مگر خود اس پر عمل کرنے کے روادار نہیں۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بادشاہ کہتے ہیں ان کی نظر میں دونوں ہی کرپشن کے بادشاہ ہیں مگر خان صاحب ہر ایسے سیاست دان کے لیے سراپا انتظار بنے بیٹھے ہیں جن کی شہرت اچھی نہیں۔ جہانگیر ترین کی نااہلی کے باعث خالی ہونے والی نشست پر ان کے فرزند ارجمند کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تو پارٹی کے اندر سے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی صدائیں بلند ہوئیں۔ نعیم بخاری نے اس حد تک مخالفت کی کہ لوگوں کو یقین ہوگیا کہ مزاج شاہی اسے گوارا نہیں کرے گی۔ نعیم بخاری کو بھی یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ اب ان کی خیر نہیں، کسی بھی لمحے تحریک انصاف کے دروازے بند ہوسکتے ہیں اور وہ اِدھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے۔
علی ترین کو ٹکٹ دے کر عمران خان نے اپنے تھیلے کی بلی کو نکال باہر کیا، بلی تھیلے سے باہر نکل آئے تو اس کی میاؤں! میاؤں! آدمی کو بدحواس کردیتی ہے۔ عمران خان جو پاناما کیس کے فیصلے پر عدالت کے قصیدے پڑھ رہے تھے اب میاں! میاں! کررہے ہیں۔ کہتے ہیں میاں نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ بہت کمزور ہے۔ حیرت ہے عمران خان کے اس بیان پر ٹی وی اینکر کو ڈیل کا خیال کیوں نہیں آرہا؟۔ کہتے ہیں علی ترین لندن میں کاروبار کرتے ہیں وہاں پر ایک عالی شان مکان میں رہتے ہیں، الیکشن کے بعد واپس چلے جاتے سو، ووٹروں نے سوچا کہ ایک ایسے شخص کو ووٹ کیوں دیا جائے جو مہمان کی حیثیت سے آیا ہے۔ یوں تو جہانگیر ترین بھی اپنے حلقے میں نہیں رہتے، شاید یہاں کے لوگ اور یہاں کی آب و ہوا انہیں پسند نہیں۔ بہر حال حالات کچھ بھی ہوں مگر یہ بات یقینی ہے کہ کسی کے امین و صادق ہونے کا فیصلہ قوم کرتی ہے۔ رہنما ہونے کا فیصلہ بھی قوم ہی کرتی ہے، یہ ایک ایسی ججمنٹ ہے جو جج نہیں کرسکتا۔ عوام اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ سیاست دان کرپٹ ہوتے ہیں، کرپشن کیے بغیر سیاست چلتی ہے نہ سیاست دانوں کی سانس چلتی ہے۔ کرپشن وہ آکسیجن ہے جو سیاست دانوں کو زندہ رکھتی ہے، جب کوئی شخص رکن اسمبلی بن جاتا ہے تو بکاؤ مال کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے، جو سب سے زیادہ مال دیتا ہے رکن اسمبلی اسی کے گن گانے لگتا ہے، قوم یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ میاں نواز شریف بھی کرپشن کرتے ہیں، مگر آصف علی زرداری سے کم کرپٹ ہیں گویا مسئلہ کرپشن کا نہیں چھوٹی بڑی برائی کا ہے اور جب بات چھوٹی بڑی برائی کی ہو تو آدمی چھوٹی برائی کا انتخاب کرتا ہے کہ اس کے پاس کوئی اور آپشن ہی نہیں ہوتا۔
کل تک جو لوگ میاں نواز شریف کے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے بیانیے کا مذاق اُڑا رہے تھے آج وہ ہماری تائید کررہے ہیں، عمران خان سے بہت سی توقعات تھیں مگر وہ قوم کی توقعات پر پورے نہ اُترے، وہ نیک کام بھی بُرے انداز میں کرتے ہیں، شادی کرتے ہیں اور مکر جاتے ہیں اور پھر اقرار کرلیتے ہیں۔ موصوف نے شادی کو بھی سیاسی بیان بنالیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شادی کرنا ہی ان کا نصب العین ہے۔ شاید وہ سیاست میں شادی در شادی کا شوق پورا کرنے کے لیے ہی آئے ہیں۔ آہ! چارلی! جمائما جس نے عمران خان کی خاطر اپنا مذہب تک بدل ڈالا۔ شیخ رشید جس کے ساتھ کھڑے ہوں وہی بہتر ہوتا ہے، آج کل جو کچھ وہ عمران خان سے کہلوا رہے ہیں اور خود بھی کہہ رہے ہیں کل تک وہ ایسے ہی بیانات بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان کے بارے میں بھی دیا کرتے تھے۔ فاتح لودھراں پیر آفتاب شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ درویش منش آدمی ہیں خدمت خلق ان کا نصب العین ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کانجو الیکشن جیتنے کا گر جانتے ہیں اور پیر صاحب خلق خدا کو راضی رکھنے کا ہنر جانتے ہیں گویا حلقہ 154 لودھراں کا الیکشن خود آگاہ اور خدا شناسی کی جیت اور تکبر کی شکست ہے۔ عمران خان کا تکبر انہیں لے ڈوبا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ عمران خان نے فراغ دلی کے ساتھ اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے مگر پیپلز پارٹی بالکل خاموش ہے تو کیا۔ اس نے اپنے رول کو تسلیم کرلیا ہے!۔